کتاب: محدث شمارہ 324 - صفحہ 89
بینکنگ میں ملوث ہوجائیں گے اور اس طرح وہ بھی سود کے چالیس فیصد لیول پر آ جائیں گے اور یقینا یہ ایک بڑا نقصان ہے۔
مولوی عمران اشرف عثمانی نے انگریزی میں Meezan Bank's Guide to Islamic Banking یعنی ’اسلامی بینکاری کے لئے میزان بینک کی راہنما‘ نامی کتاب لکھ کر شائع کی اور دارالعلوم کراچی کے استاد مولانا ڈاکٹر اعجاز احمد صمدانی نے اپنی کتاب ’اسلامی بینکاری؛ ایک حقیقت پسند جائزہ‘ شائع کی۔ ان کتب کی بنیاد پر ہم نے اس بینکاری کی درج ذیل چند خرابیاں لکھی ہیں :
1. شرحِ سود کو معیار بنایا جاتا ہے !
کسی شے کی قیمت یا کرایہ طے کرنے کے لئے مروّجہ اسلامی بینک ایک متبدل (Floating) ریٹ ذکر کرتے ہیں جس میں بنیادی اہمیت Kibor یعنی Karachi Inter Bank Offered Rate کو حاصل ہوتی ہے جو کہ بینکوں کے آپس کے لین دین کی شرحِ سود ہوتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس شرحِ سود کی بنیاد پر قیمت یا کرایے کی کا تعین کیا جاتا ہے اور اس کی تبدیلی سے قیمت یا کرایہ بدلتا رہے گا۔ اس میں دو خرابیاں ہیں :
i) قیمت یا کرایہ کے طے کرنے میں شرحِ سود کو معیار بنانے اور اس کو ذکر کرنے میں اسلام کے غیر سودی نظام سے کوئی مناسبت نہیں ہے۔
ii) اس سے یہ بھی اندیشہ ہوتا ہے کہ کسی وقت اسلامی بینک کو سرمایہ کی ضرورت ہو تو وہ بھی دوسرے بینکوں سے قرض لیتا ہے اور ان کو Kibor کے حساب سے سود ادا کرتا ہے۔
دارالعلوم کراچی کے مدرّس مولانا ڈاکٹر اعجاز احمد صمدانی اس بارے میں جو صفائی پیش کرتے ہیں ، وہ ہمارے اسی اندیشہ کی تائید کرتی ہے۔ لکھتے ہیں :
’’ہمیں اس بات کا بھی جائزہ لینا چاہئے کہ موجودہ حالات میں اسلامی بینک شرحِ سود کو کیوں معیار بناتے ہیں اور اس کا متبادل تلاش کرنے میں اُنہیں فی الحال کن مشکلات کا سامنا ہے؟
بینکوں کے باہمی شرحِ سود کا پس منظر یہ ہے کہ عام طور پر مختلف بینک ایک جیسے حالات میں نہیں چل رہے ہوتے۔ بعض بینک ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے پاس ضرورت سے زائد رقم