کتاب: محدث شمارہ 324 - صفحہ 88
معیشت واقتصاد ڈاکٹر مفتی عبد الواحد مد ظلہ دار الافتاء، جامعہ مدنیہ، لاہور مروّجہ اسلامی بینکاری کی چند خرابیاں ادارہ محدث میں مروّجہ’ اسلامی بینکاری‘ کے شرعی جائزے کے لئے جملہ مکاتب ِفکر کے جلیل القدر علما اور بینکاری ماہرین کا ایک وسیع اوربھرپور اجلاس ۲۰/ جولائی ۲۰۰۸ء کو منعقد ہوا تھا۔ دن بھر جاری رہنے والے اس اجلاس میں نمائندہ علما اور اسلامی بینکاری کے ماہرین کی ایک کمیٹی قائم کردی گئی تھی جس کے بعد ازاں دفتر محدث میں باضابطہ طورپر مزید دو طویل اجلاس منعقد ہوچکے ہیں ۔ ان مجالس میں بیسیوں اُمورپر شرعی آرا اور ماہرین کا تبادلہ خیال ہوا، جنہیں مرتب کرکے’ محدث‘ میں گاہے بگاہے شائع کیا جاتا رہے گا۔ کمیٹی کا آخری اجلاس رمضان المبارک سے قبل لاہور کی معروف علمی شخصیت حضرت ڈاکٹر مفتی عبد الواحد کی زیر صدارت منعقد ہوا تھا۔ اس مجلس میں جہاں بہت سے قیمتی مباحث پیش ہوئے، وہاں ڈاکٹر صاحب کی اس موضوع پر تازہ ترین نظر ثانی شدہ تصنیف کے بھی متعدد اقتباسات پڑھ کر سنائے گئے۔ زیر نظرمضمون اسی کتاب سے ماخوذ ہے، یہ کتاب ادارئہ محدث عنقریب شائع کرکے منظر عام پر لارہا ہے۔ ح م اس دور میں مولانا تقی عثمانی مدظلہ اور ان کے صاحبزادے مولوی عمران اشرف عثمانی سلمہ کی کوششوں سے پاکستان میں اسلامی بینکاری کا سلسلہ شروع ہوا ہے۔دوسرے مسلمانوں کی طرح الحمد للہ ہم بھی اسلامی بینکاری کے خواہش مند ہیں ، لیکن چاہتے ہیں کہ یہ نظام خالص اسلامی ہو اور اس میں سود کی اور دیگر غیر اسلامی اُمور کی آمیزش نہ ہو۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں رائج کردہ اسلامی بینکاری نظام نہ سو فیصد اسلامی ہے اور نہ ہی سو فیصد سود سے پاک ہے۔ جس کا یہ فائدہ تو ہے کہ جو لوگ پہلے سو فیصد سود میں ملوث تھے، وہ اگر اپنے مالی معاملات اور سودی بینکوں کو چھوڑ کر صرف اسلامی بینک میں اپنی رقم رکھیں تو وہ ۱۰۰ فیصد کی بجائے مثلاً چالیس فیصد سود پر آ جائیں گے، لیکن دوسری طرف اس سے بڑا نقصان یہ ہے کہ جو لوگ اپنی دینداری اور اپنی احتیاط کی وجہ سے سود وغیرہ کے صفر درجہ (Zero Level) پر تھے، وہ بھی لامحالہ اسلامی ہونے کے دعویدار بینکوں کو اسلامی سمجھتے ہوئے جزوی طور پر ہی سہی، لیکن سودی