کتاب: محدث شمارہ 324 - صفحہ 86
کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں ۔ گورمیز کے الفاظ ہیں : "But this isn't a religious ban. It came about becuase in the Prophet's time it simply wasn't safe for a woman to travel alone like that. But as time has passed, people have made permanent what was only supposed to be a temporary ban for safety reasons[1]". ’’تاہم یہ کوئی مذہبی پابندی نہ تھی۔ یہ حکم اس لیے دیاگیا کیونکہ عہد ِنبوی میں عورت کے لیے اکیلے سفر کرنا بالکل غیرمحفوظ تھا۔ وقت کے گذرنے کے ساتھ لوگ اکیلے سفر کرنے کے عادی ہوگئے، چنانچہ اسے صرف عارضی پابندی ہی تصورکیاجائے گا۔‘‘ جہاں تک محرم مرد کے ساتھ عورت کے سفر کا حکم ہے تو پروفیسرمہمٹ گورمیزکی بیان کردہ ’حفاظت درسفر‘کی علت کم علمی پر مبنی ہے کیونکہ اس حکم کی علت یہ ہرگزنہیں بلکہ فتنۂ اندیشہ کو اس کی علت کے طور پربیان کیاجاتا ہے۔ لیکن اگرایک لمحہ کے لئے گورمیز کی تراشیدہ علت ’حفاظت درسفر‘ کو بھی مان لیاجائے تو کیا گارنٹی ہے کہ آج کی عورت چودہ سوسال پہلے کی عورت سے زیادہ محفوظ ہے؟ اگر اس خودساختہ اُصول کومان لیاجائے تو یہ ہردینی حکم کے لئے معاشرتی تاویل کادروازہ کھولنے کے مترادف ہوگا کہ کل کو کوئی یہ کہے کہ قرآن مجید کی چند آیات کسی معاشرتی پس منظر میں نازل ہوئی تھیں اور آج معاشرتی تبدیلی کے پیش نظر ان آیات کا اِخراج ضروری ہے…! حدیث سے متعلق یہ منصوبہ صرف کہنے کی حد تک علمِ حدیث سے منسلک ہے ورنہ اگر بنظرعمیق جائزہ لیاجائے تویہ دراصل اسلام کی بنیادوں تک کو ہلادینے والا اِقدام ہے۔ اس کا اندازہ پروفیسر مہمٹ گورمیز کے اس جواب سے لگائیے جو اُنہوں نے اسلامی سزاؤں سے متعلق دیا۔ جب ان سے پوچھاگیا کہ وہ حدیث میں مذکور سزاؤں کو کس نظر سے دیکھتے ہیں ؟ … تو اُنہوں نے کہا : "...you don't see such things in the hadith or the Koran. Punishment is not on our agenda. ... We have no aim to