کتاب: محدث شمارہ 324 - صفحہ 85
جہاں تک حدیث کی ازسرنوتدوین کا تعلق ہے تو یہ معاملہ کچھ نیا نہیں بلکہ ریاست ترکی کے قیام کے بعد اس کی پہلی پارلیمنٹ نے ۱۹۲۳ء ہی میں حدیث کی ازسرنو تدوین وتشریح کا فیصلہ دیاتھا۔ حالیہ منصوبہ ترکی میں دوسری کوشش ہے۔[1] ترکی کے سیکولر عناصر کی طرف سے اس طرح کے اقدامات کے پس پردہ ’اصلاحِ مذہب‘ کی وہ فکر کارفرما ہے جو یورپ سے درآمدشدہ ہے۔ جس نے ۱۶ویں صدی عیسوی میں کلیسا کی اصلاح کے نام پرنہ صرف مذہب کا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیابلکہ اس کی کلامی بنیادوں کو ہی سرے سے تبدیل کردیا۔ ترکی میں جاری اصلاحِ مذہب کی حالیہ تحریک بھی انہی خطوط پرجاری ہے۔ ترکش ماہرفادی حاکورا (Fadi Hakura)نے بجاکہاہے: "This is kind of akin to the Christian Reformation. Not exactly the same, but... it's changing the theological foundations of the religion[2]". ’’یہ اصلاح عیسائیت سے ملتی جلتی قسم ہے، اگرچہ بعینہٖ ویسی نہیں تاہم یہ بھی مذہب کی کلامی بنیادوں کو تبدیل کررہی ہے۔‘‘ اس پس منظرسے یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ ’اصلاحِ حدیث‘ کی یہ نام نہاد تحریک کن عزائم کے چلمن پیچھے چھپی ہے۔ ’اصلاحِ حدیث‘ دراصل اُمت ِمسلمہ کے لئے باعث ِافتخار پہلے سے موجود ذخیرئہ حدیث، روایت وتحقیق کے معیار، محدثینِ کرام کی مساعی اور ان کے طے کردہ اُصول پر عدمِ اعتماد کا اعلانیہ اظہار ہے۔ روشن خیال اور مذہب بیزار طبقہ نے ہمیشہ دلکش عناوین کے ذریعے ہی مبادیاتِ اسلام پر حملہ کیا ہے اور یہ بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ پروفیسر مہمٹ نے اس منصوبہ کے جواز کے لئے عورت کے محرم کے ساتھ سفرکی جو مثال بیان کی ہے کہ’’ یہ ایک معاشرتی حکم تھا اور اس کا مذہبی پابندی سے کوئی تعلق نہیں اور اب معاشرتی تقاضا یہ ہے کہ عورت کو بغیرمحرم کے اجازت دی جائے۔‘‘ درحقیقت اس استشراقی فکر کی ترجمانی ہے جو رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغمبرکی بجائے صرف ایک مصلح (Reformer)