کتاب: محدث شمارہ 324 - صفحہ 82
کے لئے جدیددنیا میں رائج طریقہ ہاے تحقیق کو استعمال کرتے ہوئے ہم حدیث کو پہلے سے زیادہ قابل فہم، قابلِ عمل اور اَغلاط سے پاک بنانے کا عزم رکھتے ہیں ۔‘‘[1] پروجیکٹ کے مقاصد پروجیکٹ کے سربراہ پروفیسر گورمیز نے ۲۷فروری ۲۰۰۸ء کو جریدہ ’فنانشل ٹائمز‘ کے ایک انٹرویو میں کہا کہ اس پروجیکٹ کا مرکزی مقصد یہ ہے کہ’’ حدیث ِنبوی کو آج کے لوگوں کے لئے ایک نئی تعبیرکے ذریعے پہلے سے زیادہ قابل فہم بنایا جاسکے۔‘‘[2]جبکہ موصوف نے نیٹ بلاگ ’روٹرز‘ کو ایک انٹرویو کے دوران اس منصوبہ کے حتمی مقاصد کا ذکر اِن الفاظ میں کیا: "There are three aims: firstly, to isolate misunder- standings that stem from history, secondly to make clear how much is cultural, how much is traditinal and how much is religious, thirdly to help people today to under- stand them right[3]". ’’ہمارے تین مقاصد ہیں : پہلا یہ کہ تاریخی مداخلت کی وجہ سے پیداشدہ غلط فہمیوں کو روکنا، دوسرا: حدیث میں معاشرتی، روایتی اورمذہبی عناصر کو واضح کرنا اور تیسرا لوگوں کو حدیث کے صحیح فہم میں مدد دیناہے۔‘‘ منصوبہ برائے اصلاحِ حدیث کا منہج وطریقہ کار مذکورہ منصوبہ کے سربراہ کے بقول اگرچہ یہ صرف نئی درجہ بندی (Re-classifying) اوربعض احادیث کی تعبیرنو(Re-interpretaion)تک محدود ہے اوراس سے زیادہ کچھ نہیں ۔[4] تاہم اس منصوبہ کے منہجِ تحقیق کا ذکر کرتے ہوئے حکمراں پارٹی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی(AK)کے ترجمان مصطفی اکیول نے برطانوی روزنامہ ’گارڈین‘ کو ایک انٹرویو کے دوران کہا: