کتاب: محدث شمارہ 324 - صفحہ 79
جس کی نظر میں زندگی کے ہر شعبے میں مغرب کی نظریاتی غلامی ہی ترقی کی اصل علامت ہے۔ مصر میں طہٰ حسین، توفیق صدقی، محمود ابو ریہ اور ترکی میں ضیاء کوک الپ اس طبقہ کے سرکردہ رہنما قرار دیے جاسکتے ہیں ، بعد میں جن لوگوں نے اس فتنہ کو ایک تحریک کی شکل دی اور اس سلسلہ میں شبہات کو تقویت دی، وہ ان ہی کے خوشہ چیں تھے۔ اگرچہ اس تحریک کے بعض ارکان نے صراحۃً حدیث کا انکار کرنے کی بجائے یہ طریقہ اختیار کیا کہ جہاں کوئی حدیث اپنے مدعا یا عقل کے خلاف نظر آئی، اس کے بارے میں کہہ دیا کہ حدیث قابل استدلال نہیں ، اس کی صحت کا انکار کردیا، خواہ اس کی سند کتنی ہی قوی کیوں نہ ہو۔برصغیر میں عبداللہ چکڑالوی اور اسلم جیراج پوری نے اس فتنہ کو ہوا دی، یہاں تک کہ غلام احمد پرویز نے اس کی باگ دوڑ سنبھالی اور اسے ایک منظم نظریہ کی صورت دی۔ جبکہ دورِ حاضر میں غامدی فکر، بعض معمولی تبدیلیوں اور خصوصی احتیاط کے ساتھ، اسی تحریک کا نظریاتی ترجمان ہے۔ رہا یہ سوال کہ آخر وہ کون سی مجبوریاں تھیں جن کے باعث ان افراد کو اجماعِ امت کے خلاف یہ راستہ اختیار کرنا پڑا ۔ اس کے بارے میں ڈاکٹر مصطفی سباعی چار وجوہات بیان کرتے ہیں جن میں سے کوئی ایک وجہ ضرور محرک ہواکرتی ہے: اوّل:اسلامی سرمایہ کے حقائق سے عدمِ واقفیت اور اسلام کے اساسی مصادر سے مطالعہ نہ کرنا دوم:مستشرقین کے نام نہاد سائنٹفک تحقیقی منہاج سے مرعوبیت سوم: اتباعِ علما کے دائرہ سے نکل کر آزاد وروشن خیالی کے ذریعے شہرت ونمود کی خواہش چہارم:فکری بے راہ روی [1] رہے منکرین ونام نہاد مصلحینِ حدیث کے اعتراضات، تو یہ بحث ہمارے اس موضوع سے باہر ہے، اس کے لیے ’حجیت ِ حدیث‘کے عنوان سے مستقل کتب ملاحظہ ہوں ۔ تاہم ہمارے لیے یہ بات اہم ہے کہ علم حدیث کے ارتقا کے ساتھ ساتھ اس پر اعتراضات اور شکوک وشبہات بھی بدلتے رہے۔ اوّلاً کلامی انداز میں حدیث اور اس کے مقام کو چیلنج کیاگیا، بعدازاں راویانِ حدیث کی شخصیت کو مشکوک ٹھہرایاگیا اور یہ دعویٰ کیاگیا کہ ذخیرئہ احادیث