کتاب: محدث شمارہ 324 - صفحہ 78
اور دوسرے کو نہ مانا جائے، بعینہٖ کلام اللہ اور کلام الرسول میں سے ایک کا انکار دوسرے کے انکار کو لازم کردے گا: ﴿فَإِنَّہُمْ لَا یُکَذِّبُوْنَکَ وَلٰکِنَّ الظّٰلِمِیْنَ بِاٰیٰتِ اﷲِ یَجْحَدُوْنَ﴾ ’’پس اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ لوگ آپ کے کلام کونہیں ٹھکراتے بلکہ یہ ظالم اللہ کی آیتوں کے منکر ہیں ۔‘‘
٭ مولانا محمد یوسف لدھیانوی ’فتنۂ انکارواصلاحِ حدیث‘ کے پس پردہ حقائق میں سے ایک عجیب نکتہ بیان فرماتے ہیں :
’’اس فتنہ کے اُٹھانے والے ظالموں نے نہیں سوچا کہ وہ اس سوال کے ذریعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو اعتماد یا عدمِ اعتماد کا فیصلہ طلب کرنے کے لیے اُمت کی عدالت میں لے آئیں گے۔ اُمت اگر یہ فیصلہ کردے گی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات(حدیث) قابل اعتماد ہے، تو اس کے مرتبہ کا سوال ہوگا اور اگر نالائق اُمتی یہ فیصلہ صادرکردیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی بات(حدیث) آپ کے زمانہ والوں کے لیے لائق اعتماد ہو توہو؛لیکن موجودہ دور کے تمدن اور ترقی پسند افراد کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی حدیث پر ایمان لانے کے لئے مجبور کرنا ملائیت ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف عدمِ اعتماد کا فیصلہ ہوجائے گا۔ (معاذ اللہ، استغفراللہ)
اگردل کے کسی گوشے میں ایمان کی کوئی رمق بھی موجود ہے تو کیایہ سوال ہی موجب ندامت نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات لائق اعتماد ہے یا نہیں ؟…تُف ہے اس مہذب دنیا پر کہ جس ملک کی قومی اسمبلی میں صدرِ مملکت کی ذات کو تو زیربحث نہیں لایاجاسکتا لیکن اسی ملک میں چند ننگ ِاُمت،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس کو نہ صرف یہ کہ زیر بحث لاتے ہیں بلکہ زبان وقلم کی تمام تر طاقت اس پر صرف کرتے ہیں کہ اُمت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف عدمِ اعتماد کا ووٹ دے ڈالے۔ اگرایمان اسی کا نام ہے تو مجھے کہنا ہوگا: ﴿بِئْسَمَا یَاْمُرُکُمْ بِہٖ إِیْمَانُکُمْ إنْ کُنْتُمْ مُوْمِنِیْنَ﴾ [1]
تاریخی پس منظرواسباب
ذات اَقدس صلی اللہ علیہ وسلم پر عدمِ اعتماد کی فکر اٹھارویں صدی عیسوی کے اوائل میں مغرب کے منصوبہ بندپروپیگنڈہ سے متاثر ہو کر ایک تجدد پسند طبقہ کی صورت میں ظاہر ہوئی جس نے حدیث سے متعلق شکوک وشبہات پیدا کر کے ’انکارِ حدیث‘ کے نظریے کو فروغ دیا۔ یہ وہ طبقہ تھا