کتاب: محدث شمارہ 324 - صفحہ 77
نظر خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ، عہد ِصحابہ اور بعدازاں عہد ِ تابعین وتبع تابعین میں بھی حدیث کی تہذیب وتحفیظ کا سلسلہ جاری رہا تاکہ کوئی خارجی قول، حدیث ِ نبوی کی حیثیت اختیارنہ کرسکے۔ لیکن ہٹ دھرم، ضدی اور قبولِ حق کی صلاحیت سے محروم شخص کے لئے، حق اپنی تمام تر حقانیت ووضاحت کے باوجود مشکوک ہی رہتا ہے۔ چنانچہ منکرینِ حدیث نے حدیث کو اس کی تمام تر حجیت، مربوط نظامِ تدوین، ثبوت کے عقلی ونقلی دلائل کے باوجود درخورِاعتنا نہیں سمجھا اور اپنے لیے ’اہل قرآن‘ کا خوش نما لیبل منتخب کر کے عوام الناس کو مزید دھوکے میں مبتلا کردیا۔ قرآن مجید سے ان لوگوں کا تعلق کس قدر اور انکارِ حدیث کا مقصد کیا ہے؟
٭ اس کے بارے میں مولانا عاشق الٰہی بلند شہری رقم طراز ہیں :
’’[منکرین حدیث]سب کے سب قرآن کے جھٹلانے والے اور قرآن کے خود تراشیدہ معانی ومفاہیم کے خواہاں ہیں … حدیث کا انکار درحقیقت آزادیٔ نفس کے لیے ہے اور انکارِ حدیث کی لپیٹ میں انکارِ قرآن بھی مضمر ہے۔ یہ لوگ عجمی سازش کا شکار ہیں ۔‘‘[1]
٭ جہاں تک اس تحریک کی علمیت کا سوال ہے تو مولانا یوسف لدھیانوی کی یہ رائے بہت صائب ہے کہ
’’انکارِ حدیث کوئی علمی تحریک نہیں ، یہ جہالت کا پلندہ ہے۔ اس کا اصل منشا صرف یہی ہے کہ اب تک ایک ہی خدا کی عبادت اور ایک رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی جاتی تھی؛ لیکن اس نام نہاد ترقی یافتہ دور کے تعلیم یافتہ آزروں کو ہر روز نیا خدا چاہیے جس کی وہ پوجا کیا کریں ، اور ہر بار نیا رسول ہونا چاہیے جو ان کے لئے نظامِ ربوبیت کی قانون سازی کیا کرے۔‘‘[2]
٭ ایک دوسرے پہلو سے جائزہ لیا جائے تومعلوم ہوگا کہ انکارِ حدیث دراصل انکارِ قرآن ہے۔ ایک موقع پر سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’یہ تو میرے میاں (صلی اللہ علیہ وسلم )کا کمال تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور یہ میرا کلام ہے، ورنہ ہم نے تو دونوں کو ایک ہی زبان سے صادر ہوتے ہوئے سنا تھا۔
جس طرح خدا اور رسول کے مابین عقیدے کے لحاظ سے تفریق نہیں ہوسکتی کہ ایک کو مانا جائے
[1] خان، میرباسط علی،تاریخ عدالت آصفی،ص۲۰
[2] ایضاً،ص۵۰۵