کتاب: محدث شمارہ 324 - صفحہ 75
تین سو سال بعد نہیں بلکہ عہد ِنبوی میں ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو ہوتی رہی :
عن أبي ہریرۃ قال: ما من أصحاب النبي صلی اللہ علیہ وسلم أحد أکثر حدیثًا مني إلا ما کان من عبد اﷲ بن عمرو، فإنہ کان یکتب ولا أکتب[1]
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں مجھ سے زیادہ احادیث کا روایت کرنے والا کوئی نہیں ہے، سواے عبداللہ بن عمرو کے… کیونکہ وہ لکھتے تھے اور میں نہیں لکھتا تھا۔‘‘
حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ بن عمرو کا احادیث ِشریفہ کو لکھنا حضورِ اَقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد سے تھا۔ مستدرک حاکم کی روایت ہے کہ قریش نے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ بن عمرو سے کہا کہ تم حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں لکھتے ہو حالانکہ آپ بشر ہیں ، غصے ہوجاتے ہیں جیسے اور لوگ غصہ میں ہوتے ہیں ۔ ان لوگوں کی یہ بات سن کر حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ بن عمرو بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے اور قریش کی بات نقل کی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں لبوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
((والذي نفسي بیدہ ما یخرج مما بینہما إلا حق فاکتب)) [2]
’’قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے، ان دونوں ہونٹوں سے حق کے سوا کچھ نہیں نکلتا، لہٰذا تم لکھا کرو۔‘‘
حضرت انس رضی اللہ عنہ بھی احادیث لکھا کرتے تھے اور حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اپنے شاگردوں کو نقل کرنے کے لئے اپنی بیاضیں دے دیاکرتے تھے۔[3]
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ان کے بعد تابعین رحمہ اللہ نے احادیث کی کتابی وصدری حفاظت کا غیر معمولی اہتمام کیا۔ احادیث کی جمع وترتیب، تدوین وتبویب اور تنقیح وتہذیب کا عظیم الشان کام اکابر علماے اُمت کے ذریعہ انجام پایا۔ روایاتِ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا مجموعہ،صحیفۂ ہمام بن منبّہ، عبداللہ بن عمرو بن العاص کی لکھی ہوئی حدیثیں جو باجازتِ نبوی تحریر کی گئیں ، مکتوباتِ نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم ، احکامِ زکوٰۃ سے متعلق حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لئے لکھی گئی تحریر، الوثائق السیاسیۃ کے نام سے ڈاکٹر حمید اللہ مرحوم کا مرتب کردہ مجموعہ، حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا تدوینِ حدیث کی طرف متوجہ ہونا، امام ابن شہاب زہری رحمہ اللہ کے ذریعہ ذخیرئہ حدیث کے جمع کا ابتدائی اِقدام، مکہ میں ابن جریج، رحمہ اللہ مدینہ میں
[1] حسن ابراہیم،مسلمانوں کا نظم مملکت،ص۲۸۲
[2] برنی،ائی ایچ،مسلم اسپین وثقافتی تاریخ(کفایت اکیڈمی،کراچی)ص۵۴۶