کتاب: محدث شمارہ 324 - صفحہ 74
راہنمائی ہے۔ ارشاداتِ نبویہ کی تحریری حفاظت پر خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی ہمت افزائی فرمائی اور اہل عرب جو برسوں سے اپنے کام کتابت کی بجائے حفظ ،روایت اور زبانی کلام سے چلانے کے عادی تھی، ان میں تحریر کا شوق اُجاگر کیا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ تنبیہات بھی پیش نظر رہنی چاہئیں جو آپ نے روایت ِحدیث کے سلسلہ میں ارشاد فرمائی ہیں :
’’…آپ نے صاف طور پر فرما دیا کہ جھوٹی روایت کرنے والا قطعی جہنمی ہوگا۔ یہ اس عہد کی بات ہے جب تعلیم وتربیت سے لوگ جنت ودوزخ کو ایک حقیقت مانتے اور آخرت کے عذاب کو سب سے بڑی مصیبت گردانتے تھے۔ آج کا ذہن اپنی بے باکی کے باعث شاید اسے اتنی اہمیت نہ دے، لیکن اس وقت کسی مسلمان کو دوزخ کی وعید سنانااور اس دور کے انسان کے لئے اس سے بچنا ایک غیر معمولی تصور ہوتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریمؐنے حکمت ِ پیغمبرانہ کے تحت حدیث کی نشرواشاعت کی تلقین [فرماتے ہوئے] اوراس میں جھوٹ کی آمیزش سے احتراز کی سخت تاکید فرمائی۔‘‘[1]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف غلط الفاظ یا ان کی تعبیر منسوب کرنے سے متعلق ارشاد فرمایا:
((مَن کذب عليّ متعمّدًا فلیتبوّأ مَقعدہ من النار)) [2]
’’جوشخص قصداً جھوٹی بات میری طرف منسوب کرے، وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنالے۔‘‘
اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ کتابت ِ حدیث کی اجازت نہ صرف آقاعلیہ السلام نے خود مرحمت فرمائی بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اس کی کتابت وتدوین کے ضمن میں تنبیہات بھی ارشاد فرمادیں تاکہ ذخیرئہ حدیث کے ساتھ من گھڑت احادیث شامل نہ ہونے پائیں ۔ منکرین حدیث اور دورِ حاضر کے نام نہاد ’مصلحینِ حدیث‘ کا یہ اعتراض کہ احادیث عہد ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے تین سو سال بعد لکھی گئیں ، تاریخ سے عدمِ واقفیت کی بدترین مثال ہے۔ اب ظاہر ہے کہ خود کو اہل قرآن کہنے والے جب قرآن میں کتابت ِ حدیث یا عہد صحابہ وبعد ہ کی سرگرمیاں ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے تو قرآن کی کسی آیت میں اس کا ذکر تو نہیں ملے گا اور نتیجتاً وہ اس کا انکار کردیں گے۔ لیکن تاریخ سے واقف ہر شخص یہ جانتا ہے کہ کتابت ِ حدیث
[1] حمید الدین،ڈاکٹر ،تاریخ اسلامی(فیروزسنز لمیٹڈ،کراچی،ایڈیشن ہشتم)ص۲۷۶۔
[2] ایضاً
[3] حسن ابراہیم، مسلمانوں کا نظم مملکت،مترجم علیم اللہ صدیقی(دارالاشاعت،فریدی بک سنٹر،کراچی)ص۲۸۲