کتاب: محدث شمارہ 324 - صفحہ 73
ماحصل یہ ہے کہ قدیم علم الکلام اوراسلام کاروایتی فلسفہ اسلام کی تعبیر میں ناکام ہوچکا ہے۔ چنانچہ اس کے لیے جدید کلامی بنیادیں استوار کرنا اور حدیث کی ازسرنو تدوین و تشریح کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس کا حالیہ ثبوت ریاست ترکی کی انقرہ یونیورسٹی میں جاری ’حدیث پروجیکٹ‘ ہے جو اپنے منہج، عزائم، پس منظر اور منفی اثرات کے لحاظ سے نہ صرف قابل غور ہے بلکہ فکری وکلامی بنیادوں پر اس منصوبہ اور تحریک کا ردّ بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اسلامی دنیا خصوصاً پاکستان میں اس منصوبہ کی آگاہی مہم اس لیے بھی ضروری ہے کہ ترکی اور پاکستان کے معروضی وفکری حالات ایک دوسرے سے کچھ مختلف نظر نہیں آتے، کیونکہ ہمارا برسر اقتدار طبقہ بالخصوص اور روشن خیال طبقہ بالعموم سیکولرازم کا بری طرح سے شکار ہوکر ترکی کی مذہبی پالیسیوں کا اپنے ہاں نفاذ کا خواہاں ہے۔ اگرچہ ترکی میں اس منصوبہ کا آغازسال ۲۰۰۶ء سے ہوچکا تھا، لیکن اس منصوبہ کو مخفی رکھنے کی کوشش کے باوجود ۲۶/فروری۲۰۰۸ء میں پہلی بار اس کا انکشاف بی بی سی کے مذہبی اُمور کے نمائندہ رابرٹ پیگاٹ(Robert Pigott)کی رپورٹ کے ذریعہ ہوا۔ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے، اس منصوبہ کی تردیداور آگاہی مہم کے لئے یہ صفحات پیش کیے جارہے ہیں تاکہ اہل فکر ودانش اس ضمن میں اپنا کردار اداکرتے ہوئے حفاظت ِحدیث کی ذمہ داری پوری کرسکیں ۔ اس مقالہ کودو حصوں میں تقسیم کیاگیا ہے : مبحث ِاوّل میں ’فتنہ انکارِ حدیث‘سے فتنہ ’اصلاحِ حدیث‘تک کا تاریخی پس منظر اور اس کے دفاع میں قدیم وجدید مساعی کا تذکرہ جبکہ مبحث دوم میں ’حدیث پروجیکٹ:پس منظر، تعارف، عزائم اور ممکنہ اثرات‘ کاجائزہ لیاگیا ہے۔ اُمیدہے کہ علمائے حدیث اس چشم کشا منصوبہ سے نہ صرف آگاہی حاصل کریں گے بلکہ فکری طورپر اس کے ردّ کے لئے ممکنہ کردار بھی ادا کریں گے۔ مبحث ِاوّل: فتنہ ’انکارِ حدیث‘ سے فتنہ ’اصلاحِ حدیث‘ تک حدیث کی متداول دینی تعریف کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول فعل اور تقریر کو ’حدیث ‘کانام دیا جاتا ہے۔ تمام اُمت کا اجماع ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مسلمانوں کی ہدایت کا اہم ذریعہ ،شریعت کا دوسرا بڑا ماخذ اور زندگی کے جملہ اُمور میں قرآنِ مجید کے ساتھ مل کر ایک مکمل
[1] محمد، حمید اللہ،عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں نظام حکمرانی،(مکتبہ ابراہیمیہ حیدر آباد دکن،باردوم۱۹۴۹ء)،ص۳۵ [2] محمد، حمید اللہ،عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں نظام حکمرانی،(مکتبہ ابراہیمیہ حیدر آباد دکن،باردوم۱۹۴۹ء)،ص۳۵