کتاب: محدث شمارہ 324 - صفحہ 72
دفاعِ حدیث حافظ محمد سمیع اللہ فراز٭ ذخیرئہ حدیث کی ازسرنوتدوین و تعبیر نو؟ حکومت ِترکی کا ’اصلاحِ حدیث‘ کے نام پر ایک اور سیکولر اقدام انسانی ذہن پر مادیت کے پردے جس قدر دبیز ہوتے جارہے ہیں ، مذہب کے حوالہ سے طرح طرح کے فتنے ظہور میں آرہے ہیں ۔ زیغ وضلال، زندقہ واِلحاد ،گمراہی اور بے دینی کے داعی جدیدسائنسی اُسلوب اور منطقیت کو بنیادبنا کرمذہبی روایات اور شرعی احکام پر تیشہ تنقید تیز کرتے اور نشرواشاعت کے جدید طرق سے اپنے مزعومہ ومذمومہ افکار کے زہریلے اثرات مسلم اُمہ میں پھیلا رہے ہیں ۔ کم علمی کے باعث جو فرداِن کے پھندہ میں پھنس جاتا ہے وہ کافر یا اُن کا مؤید بن کر کفر کا داعی بن جاتا ہے۔ حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں کے بارے میں ارشاد فرمایا تھا: دعاۃ إلی أبواب جہنم مَن أجابہم إلیہا قذفوہ إلیہا[1] ’’دوزخ کے دروازوں کی طرف بلانے والے ہوں گے۔ جو شخص ان کی دعوت کو قبول کرے گا، اُسے دوزخ میں پہنچا کرچھوڑیں گے۔‘‘ انہی فتنوں میں سے ایک عظیم فتنہ ’فتنۂ انکارِ حدیث‘ ہے جو فکری لحاظ سے اسی قدر قدیم ہے جس قدر روایت ِ حدیث۔ تاہم دورِ جدید میں یہ فتنہ جدید اُسلوب اختیار کرچکا ہے اورسائنسی، کلامی اورمنطقی بنیادوں کو استعمال کرتے ہوئے ذخیرئہ حدیث کو مشکوک،نامکمل اور تہذیب حاضر کا مخالف قرار دینے کی تگ ودَو میں مصروف ہے۔حدیث کے دورِ تدوین سے لے کر گذشتہ صدی کے اَواخرتک ’انکارِ حدیث‘ اس فتنہ کایک نکاتی فکری محور تھا،لیکن جب اُنہوں نے دیکھا کہ اُمت کے اس اِجماعی سرمایہ کا ضیاع محض انکار سے ممکن نہیں تو اُنہوں نے اس کو جدید قالب میں ڈھالتے ہوئے ’اصلاحِ حدیث‘ کے نام سے سرگرمی شروع کردی ہے۔جس کا
[1] شبلی نعمانی، الفاروق سوانح عمری حضرت عمررضی اللہ عنہ (مکتبہ رحمانیہ ،لاہور )ص۲۲۰ [2] راشدہ شعیب،اسلامی نظام حکومت( بک پروموٹرز، اسلام آباد،طبع اول۱۹۹۵ء)ص۱۸۸