کتاب: محدث شمارہ 324 - صفحہ 70
کسی ملک کے اہداف ومقاصد نہیں بدلتے۔ امریکہ کے عالم اسلام بالخصوص پاکستان کے بارے میں جو استعماری عزائم ہیں ، ان میں تبدیلی کی توقع کرنا نادانی کے سواکچھ نہیں ۔ امریکہ کی شروع کردہ عالم اسلام کے خلاف مزعومہ دہشت گردی کی جنگ اب اس موڑ پر پہنچ رہی ہے کہ افغانستان وعراق کے بعد پاکستان میں اپنے مذموم مقاصد پورے کرنے پر توجہ مرکوز کی جائے۔ اس حوالے سے عالم اسلام میں پاکستان اور پاکستان میں دینی ادارے اور جماعتیں یا ایم ایم اے جیسی سیاسی قوتیں اپنی تمام تر کمزوری کے باوجود ان کے لئے پریشانی کا خصوصی سبب ہیں ۔ گذشتہ برس جولائی کے اخبارات میں امریکہ کے متوقع صدر باراک حسین اوباما کا پاکستان کے بارے میں یہ بیان شائع ہوچکا ہے :
’’اصل میدانِ جنگ عراق نہیں ، پاکستان ہے۔ امریکہ وہاں القاعدہ پر بلا جھجک حملے کرے۔ اگر وہ صدر منتخب ہوگئے تو عراق سے فوجیں نکال کر حقیقی میدانِ جنگ پاکستان بھیجیں گے، اس سلسلے میں اسلام آباد کے کسی احتجاج کی کوئی پرواہ نہیں کی جائے گی۔ پاکستان کو ہرصورت دہشت گردی کا خاتمہ کرنا ہوگا، وگرنہ وہ امریکی امداد کے خاتمے اور حملے کے لئے تیار رہے۔‘‘
باراک اوباما، جارج بش کے بالمقابل ڈیموکریٹک پارٹی کے نامزد امیدوار ہیں ۔ پاکستان پر جارحیت کے بارے میں صدر بش کی ری پبلکن پارٹی اور ان کے مقابل ڈیموکریٹک پارٹی دونوں میں کلی اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے جو امریکی عوام اور دانشوروں کی متفقہ رائے کا غماز ہے۔ اس بیان سے کم ازکم امریکی عوام کی خواہشات اور پالیسی سازوں کے رجحانات کا پوری طرح انداز ہ ہو جاتا ہے جن کی پاسداری کی ضمانت دینا عہدئہ صدارت پر براجمان ہونے کے لئے ضروری ہے۔
پاکستان عالمی سیاست کے اسی جبر کا شکار ہے کہ عالمی طاقتوں نے مشرف کی رخصتی کو اسی شرط پر گوارا کیا ہے کہ نئی حکومت اس کے طے کردہ تمام معاہدے مکمل روح کے ساتھ پورے کرنے کی ذمہ داری قبول کرے۔ مشرف کے بعد پاکستان کا حالیہ منظرنامہ اس کی پوری تصدیق کرتا ہے۔ بظاہر ان چند دنوں کے حکومتی اقدامات سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی عوام کو ریلیف دینے میں تو شاید کوئی کامیابی حاصل کرلے، لیکن عالمی سیاست کے مقاصد پورا کرنے میں وہ مشرف سے زیادہ تن دہی سے کوشش بروئے کار لائے گی۔سرحدی علاقہ جات میں تسلسل
[1] رضوی ،اظہار حیدر:’اصولِ قانون‘، ( مکتبہ فریدی اُردو کالج،کراچی ) ص۱۱۲
[2] سالمنڈ، ’اصولِ قانون‘(دارالطبع عثمانیہ،حیدرآباد دکن،۱۹۲۵ء)ص۹۱
[3] الماوردی:’’الاحکام السلطانیہ‘‘(ترجمہ سید محمد ابراہیم مطبع جامعہ عثمانیہ ،حیدرآباد دکن، اشاعت ۱۹۳۱ء)ص۱