کتاب: محدث شمارہ 324 - صفحہ 69
٭ مشرف کے دورِ حکومت میں پاکستان کے اسلامی قوانین بھی خصوصی ہدف بنے رہے۔ سیاستدانوں کو اپنے مفادات کے لئے سترھویں ترمیم اور ۵۸ ٹوبی کے خاتمے کی شرطیں رکھنے کی توفیق تو اَرزانی ہوئی، لیکن وہ اسلامی قوانین جن کا حلیہ بگاڑ کر بے حیا معاشرت کو ملک میں فروغ دیا گیا، ان کو لوٹانے کی فکر کسی کو نہیں ۔ ۹ سالہ دورِ اباحیت میں قتل غیرت، سزاے موت، حد ِزنا اور حد ِقذف اور توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے قوانین میں اس نوعیت کی تبدیلیاں کی گئیں کہ ان کا اصل جوہر اور قابل عمل ہونے کا امکان ہی معدوم ہوگیا۔
ایک شخص نے اپنے من مانے مقاصد کے لئے دستور کا حلیہ اس حد تک بگاڑا کہ دستور باہمی تضادات کا شکار ہوکر رہ گیا۔ میثاقِ جمہوریت میں یہ قرار دیا گیا تھا کہ دستورپاکستان کو اکتوبر ۱۹۹۹ء والی حیثیت پر بحال کیا جائے گا، لیکن عملاً اس معاہدے سے بھی گریز کیا جارہا ہے۔
جہاں تک مجموعہ تعزیراتِ پاکستان کی بات ہے تو اس وقت برسراقتدار پیپلز پارٹی ماضی میں خود اس قانونی شکست وریخت کے اَسباب کا اہم کردار رہی ہے حتیٰ کہ موجودہ وزیر داخلہ شیری رحمن نے حدود اور قتل غیرت کے قوانین میں تبدیلی کو اپنے سنہرے کارنامے قرار دیا تھا، سزاے موت کے خاتمے کو موجودہ وزیر اعظم نے اپنا اِعزاز باور کرایا ۔ ان حالات میں بظاہر ایسا ممکن نظر نہیں آتا کہ حکومت ِوقت ان قوانین کو دوبارہ اسلام سے قریب تر کرنے کے جرات مندانہ اِقدامات بروے کار لائے۔
البتہ جمعیت علمائے اسلام ف نے آصف زرداری کی صدارت کی حمایت کو اس امر سے مشروط قرا ردیا تھا کہ اگر وہ سرحدی علاقہ جات میں مفاہمت، جامعہ حفصہ کی تعمیر نو اور حدود قوانین میں مطلوبہ تبدیلی کا وعدہ پورا کرتے ہیں تو اس صورت میں وہ ان کی صدارت کے حق میں ووٹ ڈالیں گے۔ بظاہر ا س مطالبے کی نقار خانے میں طوطی کی آواز سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں ، یوں بھی محض وجہ ِجواز اور خانہ پری کے طور پر ان شرائط کو پیش کردیا گیا، نئے صدر کا انتخاب بھی ہوگیا اور ان شرائط کی طرف کوئی پیش رفت بھی نہ ہوئی۔ اب موجودہ حکومتی سیٹ اپ میں ان مسخ شدہ قوانین کا رجوع انتہائی مشکل امر معلوم آتا ہے، لیکن یہ ایسی چیزیں ہیں جو ملک کا مسلم تشخص قائم کرنے اور یہاں اسلامی معاشرت کو فروغ دینے کے لئے خصوصی اہمیت کی حامل ہیں ۔
٭ ترقی یافتہ دنیا میں افراد نہیں بلکہ پالیسیاں اہم ہوتی ہیں ، چہرے بدل جاتے ہیں ، لیکن
[1] البقرۃ:۱۸۸