کتاب: محدث شمارہ 324 - صفحہ 66
لوگ ان سے متنفر اور ایک فاصلے پر رہنا پسند کرنے لگے ہیں ۔ دنیا بھر میں مسلمانوں بالخصوص اہل پاکستان کو دہشت گردی کے سنگین الزام کا سامنا کرنا پڑتا ہے حتیٰ کہ یہاں تک کہا جانے لگا ہے کہ جب تک اللہ کی کتاب موجود ہے، اس وقت نعوذ باللہ دنیا میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ لیکن کیا اہل پاکستان یہ ماننے کو تیار ہیں کہ دنیا بھر کے میڈیا کا یہ دعویٰ درست ہے اور فی الحقیقت اسلام اور دہشت گردی دو مترادف الفاظ ہی ہیں ۔ ظاہر ہے کہ کوئی مسلمان بھی اس نظریہ سے کسی طرح اتفاق نہیں کرسکتا ا ور وہ خود اپنے نظریات ومعمولات کی بنا پر جانتا پہچانتا ہے کہ وہ عالمی دہشت گردی کا شکار تو ہے لیکن خود مکمل طورپر امن پسند ہے۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ مسلمان اپنے بارے میں عالمی میڈیا کے اس الزام کو ماننے کو تیار نہیں توکیا وجہ ہے کہ اسی صہیونی میڈیا کے مسجد ومدرسہ کے بارے میں الزام تراشی سے وہ متفق ہونے کا میلان رکھتا ہے؟ یہاں وہ عالمی میڈیا کے اس دعواے دہشت گردی کو الزام واِتہام باور کرنے کی بجائے یہ ماننے کا رجحان کیونکر رکھتا ہے کہ اس الزام میں کوئی نہ کوئی صداقت ضرور موجود ہے کہ اہل مدرسہ میں دہشت گردی کے جراثیم پائے جاتے ہیں ۔ آخر اس فکری تناقض اور ثنویت کی اساس اور جواز کیا ہے؟ اگر وہ اپنی قریبی مسجد ومدرسہ میں جاکر اور وہاں چند گھنٹے رہ کر خود جائزہ لینے کی کوشش کرے تو اس پر چند لمحوں میں نہ صرف اس الزام کی حقیقت آشکار ا ہوجائے بلکہ وہ اس وجہ تک بھی بآسانی پہنچ جائے کہ عالمی قوتیں مسلمانوں کا مسجد واہل مسجد سے تعلق کمزور کرنے کے لئے ہی یہ سارا پروپیگنڈا کرتی ہیں ۔ ٭ اس سلسلے میں ایک ملاقات کا تذکرہ کرنا مناسب ہوگا، رمضان المبارک سے ہفتہ بھر قبل ایک عالم دین مفتی عظمت اللہ بنوی راقم سے ملنے جامعہ لاہور الاسلامیہ میں تشریف لائے۔ موصوف شمالی وزیرستان کے سب سے بڑے دینی مدرسہ ’جامعہ المرکز الاسلامی‘ کے سابق مہتمم مولانا سید نصیب علی شاہ کے معاونِ خاص اور مجلہ ’مباحث ِ اسلامیہ‘ بنوں کے مدیر مسؤل ہیں ۔ ان سے میں نے وزیرستان میں جاری عسکری کاروائیوں اور مزعومہ اہل دین کی باہمی چشمک کے بارے دریافت کیا۔ دوسروں کی طرح راقم بھی میڈیا میں شائع ہونے والی خبروں سے متاثر ہوکر اس بارے میں فکرمند تھا کہ دو مختلف دینی پس منظر رکھنے والے لوگ آپس میں ہی کیوں برسرپیکارہوگئے ہیں … ؟
[1] بخاری،جامع صحیح(دارالسلام،الریاض۱۹۹۸ء)ص۸۳۵،حدیث ۴۷۶۵ [2] ایضاً،ص۴۴۲،حدیث نمبر ۲۷۰۷ [3] خطیب تبریزی، مشکوۃ المصابیح(مکتبہ تجاریہ ،دارالفکر،بیروت۱۹۹۱ء)۲/۳۴۲،حدیث نمبر۳۷۱۸ [4] یوسف:۴۰