کتاب: محدث شمارہ 324 - صفحہ 65
دوسروں کو بھی دھوکہ میں رکھنے کے لئے جابجا مغالطے دیا کرتے تھے۔ قوم کے ان نمائندگان کا ’چلو تم ادھر کو، ہوا ہو جدھر کی‘ کا یہ ناروا ڈھنگ اور ابن الوقتی کا مکروہ کردار تعمیری قومی رویوں اورمثبت رجحانات کے لئے زہر قاتل ثابت ہوتا ہے۔
یہ خوشامدی اور ابن الوقتی صرف چند سیاست زدہ افراد کی شناخت نہیں بنتی بلکہ پاکستان ایسے ملک میں میڈیا کے بعض معتبر اور بڑے ادارے بھی چاپلوسی کے سایۂ عافیت میں پناہ ڈھونڈ کر درپیش بحران میں کوئی کمی لانے کی بجائے اس کی شدت میں کئی گنا اضافہ کرنے کے مجرم بننا ہی پسند کرتے ہیں ۔ اس وقت میڈیا کا یہ کردار اس کے مقصد ِوجود سے بالکل متضاد نظر آتا ہے کہ وہ حکومت کی کارکردگی پر تھرما میٹر کا اہم منصب سنبھالتا ہے۔
جب ہر عام وخاص شخص ایک واضح نتیجے پر پہنچ جائے اور منصب پر قابض شخص منظر سے غائب ہوجائے تو اس وقت سخت تبصرے کرنا کوئی بہادری نہیں بلکہ اخلاقی گراوٹ ہے۔ وہ لوگ جو عوام سے بہت زیادہ معلومات اور ملکی مسائل پر گہرا درک رکھتے ہیں ، ان کا فرض یہ ہے کہ اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنے عظیم کردار پر کوئی مفاہمت قبول نہ کریں اور ان کے مقام ومنصب کا یہ بنیادی تقاضا بنتا ہے۔ کسی قوم کے اجتماعی زوال میں ایسے عناصر کا کردار بہت نمایاں ہوتا ہے، اور بدقسمتی سے ہم لوگ اس سلسلے میں کوئی قابل تعریف مثال پیش نہیں کرسکے۔
٭ یوں تو پاکستان کا موجودہ منظرنامہ بھی ہماری بداعمالیوں کے سبب ماضی سے مختلف نہیں بلکہ اس سے سنگین تر ہی نظر آتا ہے۔لیکن فی الوقت اس سے صرفِ نظر کرتے ہوئے پرویزی دور کے پیدا کردہ مسائل تک ہی ہم محدود رہتے ہیں :
پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں پاکستان کی نظریاتی اساس خصوصی طورپر ہدفِ تنقید بنی رہی اوران برسوں میں نظریاتی کشمکش زوروں پر رہی۔ مشرف کی تقریروں میں دین سے وابستہ طبقہ خصوصی عنایتوں کا مستحق ٹھہرتا۔ ہر خطاب میں راسخ فکر مسلمانوں کو آڑے ہاتھ لینا اور اُنہیں تنبیہ وتلقین کرنا اس کا معمول تھا۔ ملک بھر کے میڈیا میں پرویز کی زیرسرپرستی یہ مہم جوئی نمایاں الفاظ میں شائع ہوا کرتی۔ ۹ برس تک لگارتار یہ نظریاتی کشمکش برپا کرنے کانتیجہ یہ ہے کہ آج اسلام خود اپنے نام پر حاصل کردہ سرزمین میں اجنبی نظرآتا ہے۔ مساجد ومدارس کو عوامی سطح پر دہشت گرد قرار دلوانے میں اسلام دشمن قوتوں کو کامیاب پیش رفت حاصل ہوئی ہے اور عام
[1] مقالاتِ سیرت،حصہ اوّل(نویں قومی سیرت کانفرنس،وزارتِ اُمور مذہبی حکومت پاکستان،اسلام آباد)
پروفیسر عبداللطیف انصاری،اسلام کے قانونی نظام کے بنیادی اُصول،ص۱۰۱
[2] الشوریٰ:۱۵
[3] النساء:۵۸
[4] المائدۃ:۸
[5] ایضاً:۴۲
[6] الاعراف:۲۹
[7] ابوداؤد،السنن(دارالسلام،الریاض۱۹۹۸ء)ص۲۳۵،حدیث نمبر۱۵۸۸
[8] الفرقان:۶۰