کتاب: محدث شمارہ 324 - صفحہ 64
جس کے دام آج تک وصول کئے جارہے ہیں ۔ اور اس طرح ایک شخص کی چند کڑوڑ ڈالر قیمت ادا کرکے دنیا کی نام نہاد سپر قوت امریکہ نے پورے عالم اسلام کے مدافعانہ ردّ عمل کو کنٹرول کئے رکھا۔ نامعلوم ہمارے یہ ایجنٹ حکمران اس مکروہ کردار کو ادا کرتے ہوئے صدام حسین جیسے ماضی کے امریکی ایجنٹ کا عبرت ناک انجام کیوں بھول جاتے ہیں …!!
ایسے حکمران ہمیشہ سے اپنی رعایا کے لئے باعث ِذلت ہوتے ہیں ، جن کی قوت واقتدار کا انحصار ملک کے اندر کی بجائے دیگر خارجی عناصر پر قائم ہو۔ عالمی سیاست کے کھلاڑیوں کے لئے یہ سنہرا موقع ہوتا ہے کہ وہ ایسے قابض حکمرانوں کو وقتی سرپرستی کا جھانسا دے کر اُنہیں اپنے مفادات کے مطابق استعمال کرنے کی سفارت کاری کریں ۔اس اعتبار سے مستقبل میں بھی عالمی قوتوں کو ایسے ہی افراد کی ہردم تلاش رہے گی او روہ ان کی حمایت کو بے تاب نظر آئیں گے جو اپنے عوام کی بجائے ان کی تائید سے تقویت حاصل کرنے پر انحصار کریں ۔ لیکن غیروں کی یہ سرپرستی درحقیقت اپنی اور اپنے مادرِ وطن کی ہلاکت وتباہی کا شارٹ کٹ راستہ ہوا کرتی ہے۔ جیسا کہ پرویزی دور کے ابتدائی سال نسبتاً پرسکون نظر آتے ہیں لیکن اپنے انجام کی طرف بڑھتے بڑھتے ان کے زیر سرپرستی ایسے اقدامات میں روز بروز شدت پیدا ہوتی نظر آئی جن کا فائدہ آخر کار ملک کی بجائے دشمنوں کو حاصل ہوا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ عالمی سیاسی کھلاڑی ایسے حکمرانوں کا اپنے اوپر انحصار بڑھاتے ہوئے آہستہ آہستہ اہل وطن سے اُنہیں اس قدر دور کردیتے ہیں کہ ان کی حیثیت ایک قابض وغاصب حکمران سے زیادہ نہیں رہتی!! غور کیجئے، کیا افغانستان، وزیرستان، سوات، قبائلی علا قہ جات، حدود قوانین اور پھر لال مسجد کے لہو رنگ المیے کسی ایسے شخص سے صادر ہوسکتے ہیں جو ارضِ وطن سے ادنیٰ محبت اور مناسبت بھی رکھتا ہو۔
٭ جب اہلیت نہ رکھنے والے افراد اِقتدار کو غصب کرلیں تو اس وقت ملک کے ہر طبقے میں جہاں بدمحنتی، کاہلی اوردوسروں کے حقوق غصب کرنے کی ایک نئی ریت پروان چڑھتی ہے وہاں خوشامدی اور چاپلوسی کرنے والے عناصر بھی نمایاں ہو کر پورا معاشرتی ماحول تباہ وبرباد کردیتے ہیں ۔ مشرف کی نااہلی اور بدانتظامی، خودغرضی اوراقتدار پرستی ،سپرقوتوں کی ایجنٹی اور اہل وطن سے ظلم وبربریت کے تذکرے آج ہرفرد کی زبان پر ہیں ، لیکن اس سے کچھ عرصہ قبل ہمارے ذرائع ابلاغ اور قوم کی نمائندگی کرنے والے افراد اس کی تعریف کرتے تھکتے نہیں تھے، بلکہ
[1] ابن تیمیہ،شیخ الاسلام ، السیاسۃ الشرعیۃ(جامعہ اسلامیہ،مدینہ منورہ)ص۷
[2] صالح بن عبداللہ وعبدالرحمن،نضرۃ النعیم(دارالوسیلہ،سعودی عرب) عنوان: العدل والمساوات: ۷/۲۷۹۲
[3] رازی، فخرالدین، مفاتیح الغیب:۲۰/۱۰۵