کتاب: محدث شمارہ 324 - صفحہ 63
امریکی مفادات کی جنگ ۹ سال تک لڑی گئی۔ لال مسجد کی المناک شہادتیں اسی آمر و ظالم کے فیصلوں کی وجہ سے رونما ہوئیں جس میں سینکڑوں معصوم بچیوں کو فاسفورس بموں سے زندہ پگھلا دیا گیا۔ ۶ لاکھ پاکستانیوں کو اِسی کے کئے ہوئے معاہدوں کی بنا پر اپنے ہی ملک میں شرمناک ہجرت پر مجبور ہونا پڑا۔ الغرض اپنے نوسالہ عرصۂ اقتدار میں اس نے اسلام اور پاکستان کو جس قدر نقصان پہنچایا، اس کی تلافی میں برسوں نہیں ، عشرے صرف ہوں گے…! پرویزی اقتدارسے ’مشرف‘ ہونے سے قبل پاکستان کو میسرعالمی حیثیت اور واحد مسلم ایٹمی قوت ہونے کا وقار وطن کے ہی ایک ’محافظ جرنیل‘ نے اپنے اَرزاں مفادات کے لئے خاک میں ملا دیا۔ اسلام کے حوالے سے درجہ اعتبار پر متمکن ایک مملکت کو ایک شخص اپنے چند روزہ اقتدار کے لئے دنیا بھر میں رسوا کرتا رہا اور آج جب وہ خود رخصت ہوا ہے تو اس کے زیر ہدایت ہونے والے اقدامات کے طفیل پاکستان کا تعارف ایک دہشت گرد ملک کے طورپر کیا جاتا ہے جس میں امن وامان اور ترقی واستحکام کا کوئی شائبہ بھی موجود نہیں ہے۔ ا ور کیفیت یہ ہے کہ ۲۱ویں صدی میں وقار سے داخل ہونے کی اُمنگ رکھنے والی قوم ہلاکتوں ، ہوش ربا گرانی، تاریکیوں اور ذرائع توانائی کی قلت کے لحاظ سے اَب دنیا بھر میں پہچانی جاتی ہے۔ ٭ عالمی قوتوں نے ہمیشہ اپنے مہروں کے ذریعے اپنے مذموم مقاصد پورے کئے ہیں ۔ ان کٹھ پتلیوں کے ذریعے سامراج ہمیشہ سے پس پردہ رہ کر اپنا ہدف حاصل کرتا رہا ہے، لیکن اُن کی یہ چالبازی اُن کی چالاکی ومکاری سے زیادہ نام نہاد مسلمانوں کی غداری اور ذاتی مفادات کی رہینِ منت رہی ہے۔ عالم اسلام کا باوقار اور عسکری اعتبار سے نمایاں ترین ملک جس طرح ایک چھوٹے شخص کے ذاتی مفادات کا اَسیر رہا ہے، اس کا معمولی جائزہ بھی عبرت آموز ہے۔ نائن الیون کے بعد امریکہ نے عالم اسلام کو جس جنگ میں جھونکا تھا، اور اس کے خلاف ظلم وستم کا بازار گرم کردیا تھا، اس دہشت وبربریت کے دور میں مسلم ممالک کے کسی اتحاد کی شدید ترین ضرورت تھی جواس سلسلہ کے سامنے کوئی رکاوٹ نہ سہی توکم از کم آوازِاحتجاج ہی بلند کرسکتا۔ اپنی غیر معمولی جغرافیائی حیثیت اور عسکری صلاحیتوں کے باوصف اس نوعیت کے کسی بھی اتحاد میں پاکستان کو نظر انداز کئے بنا چارہ نہیں تھا۔ لیکن ایک ادنیٰ شخص نے اپنے حقیر مفادات کے لئے پاکستان کو امریکہ کی فرنٹ لائن سٹیٹ، درحقیقت زرخرید لونڈی بنا کے رکھ دیا
[1] البقرۃ:۴۸ [2] کتاب العین، ۶۰۹؛ الجوہری،الصحاح، ۴/۱۴۳۶؛ رازی، ابوبکر،مختار الصحاح(مطبعہ امیریہ بولاق) ۲۵۱ [3] راغب اصفہانی،مفردات القرآن(مکتبہ مرتضویہ لاحیاء الآثارالجعفریہ)۳۲۵؛ معجم تہذیب اللغہ:۳/۲۳۵۸ [4] Charles Smith, Twentieth Century Encyclopaedia,4/173 [5] Cecil Roth, The Standard Jewish Encyclopedia,1084. [6] اُردو دائرہ معارفِ اسلامیہ(شعبہ اُردو دائرہ معارفِ اسلامیہ،پنجاب یونیورسٹی لاہور)۱۳/۴