کتاب: محدث شمارہ 324 - صفحہ 138
میں اگر عہدیدارانِ عدالت کو تاہی وغفلت کریں تو مظلوم خود اس زنجیر کے پاس پہنچ کر اسے ہلادے۔[1] یہ زنجیر مظلوم کی دسترس میں تھی اور اس کو ہاتھ لگتے ہی گھنٹیاں بجتیں جن کی آواز بادشاہ تک پہنچتی اور فوراًمظلوم کی داد رسی کی جاتی۔
عالمگیر نے تمام اُمرا، وزرا اور سرداروں کے مقابلے میں قاضیوں اور عالموں کا مرتبہ اس قدر بڑھا دیا اور اُنہیں اس قدر اختیارات دے دیئے کہ سلطنت کے بڑے بڑے ارکان ان سے رشک وحسد کرنے لگے۔
عالمگیر کی دین داری، رعیت پروری اور عدل گستری کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہوسکتا ہے کہ اس نے تمام سلطنت ِمغلیہ میں یہ اعلان کردیا کہ جس کسی کو بادشاہ کے خلاف کوئی شکایت یا شرعی دعویٰ ہو، وہ بادشاہی وکیل سے رجوع کرکے اپنا معاملہ صاف کرے۔ اس کے علاوہ جو لوگ کسی مجبوری کے سبب دارالحکومت میں پہنچنے سے معذور تھے، ان کی سہولت کے لیے شہری وکیل مقرر کر دئیے گئے۔[2]
غیرجانبداری:مغلیہ دور میں عدل وانصاف کرنے میں غیرجانبداری سے کام لیا جاتا۔ نظریاتی حوالوں اور شاہانِ مغلیہ کے اقوال کے علاوہ بھی کئی مؤرخین نے کہا ہے کہ مغل حکمران غیر جانبداری سے انصاف کرتے تھے۔یہاں تک کہ بلارو ورعایت عدل گستری کے فرائض انجام دئیے۔ اکبر کے ایک منظورِ نظر گورنر (خان اعظم مرزا عزیز)کے ایک مقدمے میں عام عدالت نے فیصلہ کیا اور گورنر کو ایک کثیر رقم بطورِ خون بہا ادا کرنی پڑی۔ عدالت میں کسی کے ساتھ امتیازی سلوک روانہ رکھا جاتاتھا اور امیر غریب سب کے ساتھ مساوی سلوک ہوتا تھا۔
برصغیر پاک وہند میں مسلمانوں کی حکومت صدیوں تک قائم رہی اور ابتداے عہد سے انگریزی حکومت کے قائم ہونے تک مسلمان فرمانرواؤں کا نظامِ عدل کا ر فرما رہا۔ ملکی نظم ونسق کے ساتھ عدل وانصاف کا محکمہ خاص توجہ کا مرکز تھا اور ان کے عدل وانصاف کے بعض واقعات اب بھی زبان زدِخاص و عام ہیں ۔
الغرض مسلم دور حکومت میں اسلامی شریعت کے اَحکام کااطلاق ہوتاتھا اور خلیفہ ریاست کا سربراہ ہونے کے باوجود کسی قسم کے ترجیحی سلوک کا نہ تو حق دار ہوتا اور نہ ہی مطالبہ کرسکتا تھا۔بلکہ اکثر اوقات خلیفہ وقت کو قاضی کی عدالت میں حاضر ہوکر کسی معاملے میں صفائی پیش کرنا پڑتی تھی اور صرف عادل اور نیک لوگوں کی شہادت قبول کی جاتی تھی۔ (جاری ہے)