کتاب: محدث شمارہ 324 - صفحہ 137
سلطنت ِدہلی میں نظامِ عدل
ہندوستان میں جب مسلمان آئے تو یہاں بھی عام طور پر وہی اسلامی قانون ان کا رہنما تھا، لیکن ہندوؤں کا تمدن چونکہ بہت قدیم اور اس ملک میں متعارف تھا، اس لیے دھرم شاستر کے احکام اور دیگر معتقدات ورواجات کا بھی خاص احترام کیا جاتا تھا۔[1]
فتح سندھ کے تقریباً تین صدی بعد غزنویوں نے پنجاب میں اپنی حکومت قائم کی۔ غزنویوں نے سندھ کی عرب حکومت کی طرح دیوانی معاملات میں خود ہندوؤں کی پنچائتوں سے کام لیا۔ اور ہندوپنڈتوں کو فصلِ خصومات کا اختیار دیا جبکہ مسلمانوں کے معاملات قاضیوں سے متعلق رہے۔ نظامِ عدل کے دوسرے معاملات میں غزنویوں نے عباسیوں کی کہیں براہِ راست اور کہیں بالواسطہ پیروی کی۔
اسلامی ملکوں کی طرح ہندوستان میں بھی عدالتی عہدیداروں پر بڑی کڑی اور بھاری ذمہ داری عائد تھی اور قاضیوں کو خلافِ شرع فیصلہ کرنے پر موت کی سزا دی جاتی تھی۔سلطان بحیثیت قانون کو نفاذ کرنیوالا اور سربراہِ مملکت تین طرح کے فرائض سرانجام دیتے تھے۔
’’اپنی پہلی حیثیت میں وہ ’دیوانِ قضا‘ کے ذریعے انصاف پروری کرتا تھا۔ دوسری حیثیت میں ’دیوانِ مظالم‘ کے ذریعے اور تیسری حیثیت میں وہ خود یا اس کے اعلیٰ فوجی عہدے دار فوجی عادل کی حیثیت سے باغیوں کے مقدمات سنتے تھے۔‘‘[2]
عہد ِسلاطین میں سب مسلم حکمرانوں نے اپنے اپنے طور پر عدل قائم کرنے کی کوشش کی۔ انہی میں سے سلطان التمش بھی اپنے عدل وانصاف میں مشہور تھا۔ غرض وہ سلاطینِ دہلی ہوں یا مغل حکمران، ہر کسی نے اپنے طور پر عدلیہ کے مضبوط ادارے قائم کیے اور عدلیہ کو دیگر اداروں پر فوقیت دی۔
انصاف ہمیشہ مسلمان بادشاہوں کا شعار رہا ہے۔ شہنشاہ جہانگیر نے تخت نشینی کے بعد پہلا حکم جو دیا وہ ’زنجیر عدل‘ باندھنے کا تھا تاکہ مظلوموں اور ستم رسیدوں کی داد خواہی وانصاف رسانی