کتاب: محدث شمارہ 324 - صفحہ 136
اس کے فیصلوں سے سرتابی کرسکے۔ غیرمسلوں کے دیوانی مقدمات ان کے اپنے مذہبی پیشوا سنتے۔ فوجداری کی صورت میں بلاتمیز رنگ ونسل، جنس و قوم،زبان، مذہب وملت،سبھی کو حکومت کے مقرر کردہ منصفوں کے سامنے پیش ہونا پڑتا،حتیٰ کہ خلیفہ بھی کسی قسم کے ترجیحی سلوک کا نہ تو حق دار ہوتا اور نہ ہی مطالبہ کرسکتا تھا۔عہد ِبنی عباس میں عدالتی نظام میں زبردست انقلاب آیا اور اس میں کئی تبدیلیاں بھی رونما ہوئیں ۔ ’’اس دور میں عراق کے قاضی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مذہب کے مطابق شام اور بلا دِمغرب کے قاضی امام مالک رحمہ اللہ کے مذہب کے مطابق اور مصر کے قاضی امام شافعی رحمہ اللہ کے مذہب کے مطابق فیصلے کرتے تھے۔ اگر مدعی، مدعاعلیہ ایسے مذہب سے تعلق رکھتے ہوتے جو عام طور پر اس شہر میں رائج نہ ہوتا تو اس وقت ان کے مقدمے کے فیصلے کے لیے قاضی کسی ایسے شخص کو نائب بنادیتا جو اُنہی کے مذہب کا پیرو کار ہوتا تھا۔‘‘ آہستہ آہستہ اس نظام کو زوال آگیا۔عباسی دورِ انحطاط میں عدالت کا محکمہ سیاسی اثر سے آزاد نہ تھا۔[1] اندلس میں عدلیہ مسلم اسپین میں حکومت کاہر محکمہ منظم طور پر قائم تھا اور مسلمانوں کے دورِ حکومت میں اسپین علوم وفنون کا گہوارہ تھا۔ مسلمان حکمرانوں نے اسپین میں عدلیہ کے ادارے بھی مضبوط بنیادوں پر قائم کیے تھے۔مسلم اسپین میں سب سے بڑا اور مقدس عہدہ قضا کا ہوتا تھا۔ قاضی دیوانی اور قاضی فوجداری جدا جدا ہوتے تھے۔ ان کا اجلاس عام طور پر مسجد کے دروازے پر ہوتا تھا۔ آئی ایچ برنی نے لکھا ہے: ’’صرف یہی ایک عہدہ دار تھا جو تمام سلطنت میں سب سے زیادہ بااختیار ہوتا تھا اور خلیفہ تک کو اس کے فیصلے ردّ کرنے کی ہمت نہ ہوتی تھی۔ اسپین کا نظام عدالت اس زمانہ کے عجائبات میں سے تھا۔ پہلے قواعد بنائے جاتے تھے، پھر ان کو دارالسلطنت اور سرحدی علاقوں میں نافذ کرکے ان کا تجربہ کیا جاتا تھا۔ اس کے بعد وہ سلطنت میں نافذ کیے جاتے تھے، مقدمات کے فیصلے میں قطعاً دیر نہ کی جاتی تھی اور کسی سفارش یا حمایت کو فیصلے پر اثر انداز نہ ہونے دیا جاتا تھا۔ جتنے فیصلے ہوتے، وہ نہایت ہوش مندی اور انصاف پر مبنی ہوتے تھے۔‘‘[2]