کتاب: محدث شمارہ 324 - صفحہ 135
ساتھ ساتھ قاضیوں کے فرائض خود سرانجام دیتے تھے، مگر رفتہ رفتہ ہر صوبے اور ہر شہر میں عامل کے علاوہ قاضی کا تقرر ہونے لگا۔ بنو اُمیہ کے دور میں بھی کم وبیش خلفاے راشدین کے دور کی طرح ہی نظامِ عدل قائم رہا، بعد میں چند تبدیلیاں بھی آئیں ۔ ڈاکٹر حمید الدین کے بقول:
’’قاضیوں کے فیصلے اسلامی شریعت کی رو سے قرار پاتے۔ اگر کوئی تنازعہ اس نوعیت کا ہوتا جس کے بارے میں قرآن اور حدیث کوئی قطعی فیصلہ نہ دیتے ہوں تو ایسے معاملات کے فیصلے قاضی اپنے اجتہاد اور علما کے مشوروں سے کرتے تھے۔ اُنہیں صرف مسلمانوں کے مقدمات سننے کا حق حاصل تھا، غیرمسلموں کے لیے علیحدہ جج اور پیشوا مقرر ہوتے تھے۔ جو اُن کے لیے اپنے مذہب اور رواج کے مطابق فیصلے کرتے۔‘‘[1]
وہ مزید لکھتے ہیں :
’’قاضیوں کو بڑی بڑی تنخواہیں دی جاتی تھیں تاکہ وہ رشوت یا خیانت کی طرف مائل نہ ہوسکیں ۔ انصاف کے علاوہ اوقاف کے مال کی نگرانی بھی قاضیوں کے فرائض میں شامل تھی۔ بنی اُمیہ کے عہد میں عدلیہ، خلافت ِراشدہ ہی کی طرح انتظامیہ سے آزاد رہی اور اس محکمہ کو صیغہ قضا کہتے تھے۔ مرکز کے علاوہ ہر صوبہ اور ہر ضلع میں عدالت قائم تھی جہاں اسلامی شریعت کے مطابق فیصلے ہوا کرتے تھے۔ ‘‘[2]
بنواُمیہ کے زمانہ کی دوامتیازی خصوصیات ہیں ۔ جن میں پہلی یہ تھی کہ اس دورمیں قاضی عام طور پر اجتہاد سے کام لیتے تھے اور کسی مخصوص شخص کی تقلید نہیں کرتے تھے،ایسے ہی اُنہیں کتاب وسنت کی روشنی میں اپنی سمجھ بوجھ سے کام لینے کی پوری آزادی تھی۔
دوسری خصوصیت یہ تھی کہ
’’عدالت کا محکمہ اپنے اختیارات وفرائض میں اُموی فرمانرواؤں کے اثر سے بالکل آزاد تھا۔ ان کے ذاتی رجحانات کا ان پر کوئی اثر نہ تھا۔ اس زمانے میں عدالت کے فیصلے گورنروں اور خراج کے افسروں تک بلارو و رعایت نافذ کیے جاتے تھے۔ عہد اُموی میں قاضی کے انتخاب کے لیے ضروری تھا کہ وہ بلند سیرت، پاکباز، پرہیزگار، عالم، مجتہد اور عیوب سے مبرا ہو۔ اور عدل وانصاف کے مقابلے میں اس کودنیا کی کسی طاقت کی کوئی پرواہ نہ ہو۔‘‘ [3]
عہد ِعباسی میں بنو اُمیہ کی ہی طرح قاضیوں کے اختیارات تھے۔قاضی القضاۃ (چیف جسٹس) کے رعب داب اور عزت ومرتبہ کا یہ عالم تھاکہ اُمرا، وزرا بلکہ خلیفہ تک کو یہ جرات نہ ہوتی تھی کہ