کتاب: محدث شمارہ 324 - صفحہ 134
دورِ عثمان رضی اللہ عنہ بن عفان
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ایک نرم دل خلیفہ تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عدل گستری سے متعلق جو اوصاف ضوابط طے کیے، وہ ان کے زمانے میں بھی بحال رہے۔ ان کے زمانے میں ایک عمارت ’دارالقضاء‘ کے نام سے بنائی گئی جس میں عدل سے متعلق معاملات انجام دیے جاتے تھے۔[1]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا دور
عدلیہ کی جو حیثیت اور شان ووقعت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں اور پھر تینوں خلفائے راشدین کے عہد میں تھی، وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عہد میں بھی باقی رہی۔ قضا کے باب میں سیدناعلی اپنی مثال میں یکتا تھے۔ سراجِ نبوت سے ہر صحابی نے کسب ِفیض کیا اور سب کے الگ الگ رنگ ہیں ۔ حضرت مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو اللہ نے کارِ قضا میں ممتاز بنایا اور زبانِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے ((أقضاھم علي)) کا اعزاز اُنہیں ملا۔کتنی گتھیوں کو اُن کی ذہانت نے سلجھایا۔ سیدناعلی رضی اللہ عنہ کاقاضی شریح رحمہ اللہ کی عدالت میں حاضرہوکر ایک یہودی کے خلاف انصاف چاہنا اور قاضی شریح کا امیر المومنین کے خلاف ایک یہودی کے حق میں فیصلہ دینا اسلامی تاریخ کا معروف واقعہ ہے۔[2]
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے دورِخلافت میں نظام عدل کو بھی بہت ترقی دی اور ان کے فیصلے اسلامی نظامِ عدل میں اعلیٰ نظیر کا درجہ رکھتے ہیں ۔ گواہی دینے سے متعلق آپ نے جو فیصلے کیے ہیں ،ان میں جھوٹی گواہی دینے پر شہر بھر میں تشہیر کرنے کے بعد قید کی سزا اوریہ بھی کہ کسی قضیہ کا فیصلہ ایک گواہ پر بھی ہوسکتا ہے۔ ایسے ہی چار عادل گواہ اگر خودمتہم ہوں تو ان چاروں پر حد لگے گی۔ اُنہوں نے نکاح میں عورتوں کی گواہی جائز قرار دی، لیکن طلاق میں نہیں ۔ ان کے مطابق دشمن کی گواہی کو تسلیم نہیں کیا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عہدئہ خلافت کے ساتھ ساتھ عہدئہ قضا کو بھی بخوبی انجام دیا۔ ان کے فیصلے تاریخ میں روشن مثالیں ہیں ۔
اُموی اور عباسی عہد میں نظامِ عدل
ابتدا میں خلفاے راشدین اور ان کے تعینات کیے ہوئے صوبائی امیر انتظامی اُمور کے