کتاب: محدث شمارہ 324 - صفحہ 133
عہد ِفاورقی رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ والا اُصول اپنایا کہ پہلے قرآن وسنت سے مسئلے کا فیصلہ ڈھونڈتے تھے۔ اس کے بعد دیکھتے تھے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں اس کے بارے میں کیا فیصلہ ہوچکا ہے؟ اگر معلوم ہوجاتا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے فیصلہ کو نافذ کردیتے ، ورنہ وہ بھی اہل حل وعقد کو جمع کرتے اور باہمی مشاورت سے جو فیصلہ ہوتا، اس کو نافذ کردیا جاتا۔ قواعد ِعدالت کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ایک تحریرکتب تاریخ میں محفوظ ہے جو یوں ہے: ’’خدا کی تعریف کے بعد قضا ایک ضروری فرض ہے۔ لوگوں کو اپنے سامنے اپنی مجلس میں اپنے انصاف میں برابر رکھو تاکہ کمزور انصاف کے حصول میں مایوس نہ ہواور تمہاری رعایت کی اُمید نہ پیدا ہو۔ جو شخص دعویٰ کرے، اس پر بارِ ثبوت ہے اور جوشخص منکر ہوا س پر قسم صلح جائز ہے بشرطیکہ اس سے حرام حلال اور حلال حرام نہ ہوجائے۔ کل اگر تم نے کوئی فیصلہ کیا تو آج غور کے بعد اس سے رجوع کرسکتے ہو۔ جس مسئلے میں شبہ ہو اور قرآن وحدیث میں اس کا ذکر نہ ہو تو اس پر غور کرو اور پھر غور کرو اور اس کی مثالوں اور نظیروں پر غور کرو۔ پھر قیاس کا رستہ اپناؤ۔ جو شخص ثبوت پیش کرنا چاہے تو اس کے لیے ایک میعاد مقرر کرو، اگر وہ ثبوت دے تو اس کا حق دلاؤ، ورنہ مقدمہ خارج کردو۔ مسلمان سب ثقہ ہیں ، سواے اُن اشخاص کے جن کو حد کی سزا میں درّے لگائے گئے ہوں یا جنہوں نے جھوٹی گواہی دی ہے، یا وِلاء اور وراثت میں مشکوک ہوں ۔‘‘[1] حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورمیں قاضی(جج) کا تقرر ایک مستقل ادارے کی صورت اختیار کرگیا تھا اس کو دیگر خلفاے راشدین نے بھی جاری رکھا۔ اس نظام میں عامل کو قاضی کے ماتحت رکھا گیا تھا تاکہ وہ اس کے اثر سے آزاد ہو کر عدل کرسکے۔ قاضی کو تمام بیرونی اثرات سے محفوظ رکھا جاتا تھا۔ ہر صوبے میں قاضی کا تقرر ہوتا تھا۔ صوبائی گورنر کو قاضی کا کوئی اختیار نہیں دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ہر ضلع میں چھوٹے قاضی بھی موجود تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورمیں قاضیوں کو تنخواہیں دی جانے لگیں تاکہ وہ اپنی زندگی بآسانی گزارسکیں اور لالچ میں مبتلا نہ ہوں ۔ٍ[2]