کتاب: محدث شمارہ 324 - صفحہ 132
اسی رہبر اور حاکم کی طرف قرآنِ مجید میں اشارہ فرمایا گیا: ﴿یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ اَطِیْعُواْ اللّہَ وَاَطِیْعُواْ الرَّسُولَ وَاُوْلِیْ الاَمْرِ مِنکُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْْئٍ فَرُدُّوہُ إِلٰی اﷲِ وَالرَّسُولِ إِن کُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّہِ وَالْیَوْمِ الآخِر﴾[1] ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اور اپنے حکمرانوں کی۔ پھر اگر تم میں کسی بات کا جھگڑا اُٹھے تو اسے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور رجوع کرو، اگر اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتے ہو ۔‘‘ جیسے جیسے تہذیب نے ترقی کی، عدل کی ضرورت بھی بڑھتی گئی اور دنیا کے نظامِ عدل میں ترقی اور جدتیں بھی پیدا ہوتی گئیں اور آج ہمارے سامنے دنیا بھر میں جو نظامِ عدل قیام فرماہے، وہ جہاں تہذیب کے تمام تر تجربات کا نچوڑ ہے، وہاں اللہ کے دیے ہوئے نظام عدل سے بھی اس میں بھرپور استفادہ کیا گیا ہے۔ بہر حال اسلام کی رو سے تو کسی بھی نظام عدل کی اساس اللہ تعالیٰ کی محکم شریعت ہی ہوسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں اس الہامی اساس کو چھوڑ کر جو بھی نظا م عدل آج تک متعارف کرایا گیا ہے، وہ اپنی تمام تر ترقی کے باوجود انسان کو مطلوبہ امن وانصاف فراہم کرنے سے عاجز رہا ہے۔ اور یہ سوال آج بھی نمایاں طورپر موجود ہے کہ اپنے آپ کو مہذب کہلانے والی دنیا کا نظام عدل کیا مہذب کہلانے کا مستحق ہے اور کیا اس سے انسانیت امن وآشتی کے دیرینہ خواب کو شرمندۂ تعبیر کرسکے گی؟ اسلامی عدل وانصاف کا اِرتقا اسلام میں سب سے پہلے قاضی خود رسول اللہ تھے جنہوں نے عدل کا بول بالا کیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عدالتی طریق کار کے بعد حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کا عہد ِقضا آتا ہے، ان کا معمول یہ تھا کہ ’’اگر کتاب وسنت سے کوئی نظیر نہیں ملتی تھی تو وہ باہر تشریف لے جاتے اور مسلمانوں سے کہتے کہ میرے سامنے یہ مسئلہ درپیش ہے، کیا تم جانتے ہو؟‘‘وہ اس کے بارے میں جو بات کہتے ان سے مشورہ کرکے قرآن وسنت کی روشنی میں فیصلہ کرتے۔ ‘‘[2] سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد میں عدلیہ اور انتظامیہ کو ’شریعت کی حکمرانی‘کا دور قرار دیا جاسکتا ہے۔