کتاب: محدث شمارہ 324 - صفحہ 130
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عزم کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اہل الرائے سے مشورہ کرنا اور پھر ان کی پیروی کرنا۔‘‘ 4. تعزیرات کا نفاذ: فوجداری جرائم کی سزائیں ایسی صورت حال میں نافذ کرنی چاہئیں ، جب معاشرہ میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا خاطر خواہ اہتمام موجود ہو اور حالات معمول پر ہوں ۔ جب تک معاشرہ میں نفاذِ اسلام کے لیے سازگار حالات پیدا نہ کردئیے جائیں یا یہ کہ حالات ایسے غیر معمولی ہوں جن میں ارتکابِ جرم کے محرکات ترقی پذیر ہوں تو سزاؤں کی کے نفاذ سے پہلے جرم کی روک تھام پر توجہ دینا ضروری ہے۔چنانچہ خاص جنگی یا غیر معمولی حالات میں سزاؤں کے وقتی التوا کی گنجائش بھی موجود ہے جیسا کہ قحط کے زمانے میں خلیفہ ثانی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وقتی طور پر چوری کے لیے قطع ید کی سزا اِلتوا میں ڈال دی تھی۔ 5.شریعت ِالٰہی کے مطابق فیصلہ:مفتی و قاضی پر لازم ہے کہ وہ صرف قانونِ الٰہی یعنی قرآن اور سنت کے مطابق فیصلہ کرے اور عدل و انصاف سے کام لے۔ عدل وانصاف سے فیصلہ کرنے کا حکم کسی کی خواہشات پر چلنے کی کلی نفی کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی وضاحت اس آیت میں فرمادی: ﴿وَلاَ تَأکُلُوْا اَمْوَالَکُم بَیْنَکُم بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوْا بِہَا إِلَی الْحُکَّامِ لِتَاْکُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالإِثْمِ وَاَنتُمْ تَعْلَمُون﴾[1] ’’اور اپنے آپس میں اپنے مالوں کو ناحق نہ کھاؤ،اور ان کو حکام کی طرف ڈالو، تاکہ تم گناہ کے ساتھ لوگوں کے مال کا ایک حصہ کھا جاؤ اور تم تو جانتے ہو۔‘‘ عدل میں حرص یا خواہشات کا خواہ وہ اپنی ہو یا کسی اور کی، کوئی دخل نہیں ہونا چاہیے اورحاکم کو شہادتوں کے مطابق فیصلہ کرنا چاہیے۔ نظامِ عدل کی ضرورت اور تاریخی ارتقا نظام عدل کی بنیاد کب اور کس نے ڈالی اور ابتدائی دور کا نظامِ عدل کیسا تھا؟ اس بارے میں واضح بات یہی ہے کہ پہلے انسان حضرت آدم کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے اپنی وحی کا سلسلہ شرو ع کردیا اور انسان نے جب سے معاشرتی زندگی کا آغاز کیا، اسی دن سے انصاف کے اُصولوں کو اپنانے کی کوشش شروع کردی۔ پہلا جھگڑاحضرت آدم علیہ السلام کے دوبیٹوں ہابیل اور قابیل کے درمیان ہوا تھا، ایک نے دوسرے