کتاب: محدث شمارہ 324 - صفحہ 127
’’فقد عدلنا باﷲ، قتلنا النفس التي حرّم اﷲ إلاّ بالحقّ واٰتینا الفواحش فأنزل اﷲ ﴿إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا﴾‘‘[1]
’’پس ہم نے اللہ کے معاملے میں انصاف کیا اور اُس نفس کوقتل کیا جس کو اللہ نے حق کے ماسوا قتل کرنا حرام کیا،اور ہم نے فحش کام کیے پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی: ﴿إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا﴾‘‘
لوگوں کے درمیان اصلاح کروانے اور ان کے درمیان انصاف کرنے والے کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے:
((یعدل بین الناس صدقۃ)) [2]’’لوگوں کے درمیان انصاف کرنا صدقہ ہے۔‘‘
حکمران کے بارے میں حدیث میں آتا ہے:
((فإذا عدل کان لہ الأجر)) [3]’’جب وہ عدل کرے تو اس کے لیے اجر ہے۔‘‘
عدل وانصاف کے اُصول
محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک طرف تو جرم کی سزا کی تنفیذ کی سختی سے تاکید فرمائی تو دوسری طرف آپس کے معاملات میں جن کا تعلق انفرادی زندگی سے تھا، عفو و درگزر کی تعلیم دے کر معاشرہ میں جماعت اور افراد دونوں کواستحکام بخشا اور نظامِ عدل کو ایسے بنیادی اُصولوں سے نوازا جو عالم گیر اہمیت کے حامل ہیں ۔
1. اصل قانون سازاللہ تعالیٰ: ربّ ِکائنات ہی حکمرانِ حقیقی ہے۔ اس حقیقت کو قرآن کریم میں متعدد بار بیان کیا گیا اور اتنے زور کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ اس سے زیادہ پُرزور الفاظ کسی بات کی اہمیت کو واضح کرنے کے لیے استعمال نہیں ہوسکتے۔ ارشادِ باری ہے:
﴿إِنِ الْحُکْمُ إِلاَّ ﷲِ اَمَرَ اَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِیَّاہُ ذَلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ﴾[4]
’’حکم اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ، اس کا فرمان ہے کہ خود اس کے سوا تم کسی کی بندگی اور اطاعت نہ کرو، یہی صحیح طریقہ ہے۔‘‘
2. قانون سازی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بطورِ منصف انسانیت