کتاب: محدث شمارہ 324 - صفحہ 126
کے لیے قانون وعدل نہایت ضروری ہیں ۔ عدل کے بغیر، جس کی بنیاد قانون پر ہوتی ہے، امن وامان قائم نہیں رہ سکتا، اس لیے اسلام نے ایسے جرائم میں حدمقرر کی جس کا اثر دوسروں پرپڑتاہے جیسے چوری،زنا، قتل وغارت گری، لوٹ مار اور شراب نوشی وغیرہ اور انصاف اور سزا کا اختیار صرف ان لوگوں کو دیا جن کے ہاتھ میں حکومت کی باگ ڈور ہو۔ قانون کے نفاذ سے جرائم کا انسداد ضروری ہوجاتا ہے اور معاشرہ کسی حد تک جرائم سے پاک بھی ہوجاتا ہے۔[1]
٭ اللہ تعالیٰ نے ہر معاملے میں عدل قائم کرنے پر زور دیا ہے۔ اس کے متعلق رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا ہے:
﴿وَاُمِرْتُ لِاَعْدِلَ بَیْنَکُم﴾[2]’’مجھے تمہارے درمیان انصاف کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔‘‘
﴿وَإِذَا حَکَمْتُم بَیْنَ النَّاسِ اَن تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ﴾[3]’’اور جب بھی تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو۔‘‘
﴿وَلاَ یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَی اَلاَّ تَعْدِلُواْ اعْدِلُواْ ہُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوَی﴾[4]
’’اور کسی قوم کی دشمنی کے باعث عدل کو ہرگز نہ چھوڑو، عدل کرو یہی تقویٰ کے بہت زیادہ قریب ہے۔‘‘
﴿ وَإِنْ حَکَمْتَ فَاحْکُم بَیْْنَہُمْ بِالْقِسْط﴾[5]’’اور اگر تو فیصلہ کرے تو ان کے درمیان عدل کے ساتھ فیصلہ کر۔‘‘
﴿قُلْ اَمَرَ رَبِّیْ بِالْقِسْط﴾[6]’’ کہہ دے کہ میرے رب نے مجھے انصاف کا حکم دیا ہے۔‘‘
٭ احادیث میں بھی عدل کی بہت زیادہ اہمیت پائی جاتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:((فإن عدلوا فلأنفسھم، وإن ظلموا فعلیھا))[7]’’اگر وہ انصاف کریں توان کے لیے فائدہ مند ہے، اگر ظلم کریں تو ان کے لیے وبال جان۔‘‘
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اللہ تعالیٰ کے اس قول ﴿إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا﴾[8] (مگر جس نے توبہ کی، ایمان لایا اور نیک کام کیے)کے بارے میں روایت کرتے ہیں کہ میں نے اس آیت کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو مکہ والوں نے کہا: