کتاب: محدث شمارہ 324 - صفحہ 125
’’روزمرہ معاملات میں لوگوں کے درمیان فیصلہ کرتے ہوئے جج یا قاضی عدل وانصاف کے ساتھ ان کے حقوقِ عامہ کا یوں تحفظ کرے کہ کسی ایک کی بھی حق تلفی نہ ہو۔‘‘ ’’عدل کو عربی زبان میں ’قضائ‘کہتے ہیں ۔ شرعی اصطلاح میں قضا کے معنی یہ ہیں کہ حکومت کے معینہ ادارے کی طرف سے قرآن وسنت اور شرعی احکام کی روشنی میں عامۃ الناس کے باہمی تنازعات کا تصفیہ کیا جائے اور مقدمات فیصل کیے جائیں ۔‘‘[1] ٭ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’سیاست ِ شرعیہ کی عمارت دوستونوں پر قائم ہے۔ ایک ہے مناصب اور عہدے اہل تر لوگوں کو دینا اور دوسرا ہے عدل وانصاف کے ساتھ فیصلے کرنا۔ انصاف ہی پر دنیا ودین کی فلاح کا دارومدار ہے اور بغیر عدل کے فلاحِ دارین کا حصول ناممکن ہے۔‘‘[2] ٭ امام فخر الدین رازی رحمہ اللہ کہتے ہیں : ’’العدل فھو عبارۃ عن الأمر المتوسط بین طرفي الإفراط والتفریط، وذلک أمر واجب الرعایۃ في جمیع الأشیائ‘‘[3] مندرجہ بالا تعریفات کی بنا پر کہا جاسکتا ہے کہ عدل کا مفہوم مختلف مناسبتوں سے مختلف ہوتا ہے۔ عدل کا ایک مفہوم یہ ہے کہ انسان اپنے نفس اور اپنے ربّ کے درمیان عدل کرے، یعنی اللہ کے حق کو اپنی خواہش پر مقدم رکھے۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ اپنی ذات کے ساتھ عدل کرے، یعنی اپنے نفس کو ایسی تمام باتوں اور چیزوں سے بچائے رکھے جن سے جسمانی و روحانی ہلاکت واذیت کا خطرہ ہو اور تیسرا مفہوم یہ ہے کہ اپنی ذات اور مخلوق کے درمیان عدل کرے یعنی تمام مخلوقات سے ہمدردی وخیرخواہی کا برتاؤ کرے۔ ہمارے ہاں عدل کو عدالت کے ساتھ منسلک کردیا گیاہے۔ عدل و انصاف کی اہمیت و ضرورت قرآن و حدیث کی روشنی میں معاشرے میں استحکام پیدا کرنے کے لیے عدل وانصا ف اور سزا نہایت ضروری ہیں ۔ اس کے بغیر معاشرہ جرائم اور منکرات سے پاک نہیں ہوسکتا۔ معاشرے کو برائیوں سے مبرا رکھنے