کتاب: محدث شمارہ 324 - صفحہ 124
﴿وَلاَ یُقْبَلُ مِنْہَا شَفَاعَۃٌ وَلاَ یُؤْخَذُ مِنْہَا عَدْلٌ وَلاَ ہُمْ یُنصَرُون﴾[1] ’’اورنہ کسی کی سفارش منظور کی جائے گی اور نہ کسی سے کسی طرح کا بدلہ قبول کیا جائے گا۔‘‘ ٭ لیکن اگر عدل بالکسرہ ہو تو اخفش کے مطابق اس کے معنی’المثل‘ کے ہیں ۔[2] ٭ اہل لغت نے اگرچہ العَدل اور العِدل کے معنی الگ الگ لیے ہیں ، لیکن اس سلسلے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ دونوں الفاظ قریب ُالمعنی ہیں ۔ عَدل معنوی چیزوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اور عِدل ان چیزوں کے لیے بولا جاتا ہے جن کا اِدراک حواسِ ظاہرہ سے ہوتا ہے۔[3] ٭ عدل اصل میں عربی لفظ ہے۔ اُردو میں اس کا ہم معنی ’انصاف‘ انگریزی میں "Justice" اور عبرانی میں صداقاۃ اور مشپاط ہے۔ ٭ Twentieth Century Encyclopaediaمیں Justiceکے ضمن میں مقالہ نگار لکھتا ہے : Equal distribution of right in expressing opinions; fair representation of facts respecting merit or demerit: equity, impartiality. [4] ٭ The Standard Jewish Encyclopediaکا مقالہ نگار لکھتا ہے : The Biblical Hebrew words for Tzedek, Tzedakah, Mishpat possess many shades of meaning, Justice, righteousness, proper behaviour, fairness, integrity. [5] ٭ اُردو زبان میں ’عدل‘ کو بطورِ اسم ذات بھی استعمال کیا جاتا ہے اور بطورِ اسم صفت بھی، اس صورت میں اس کے معنی ایک دوسرے سے مختلف ہوں گے: ’’اسم ذات کے طور پر عدل کے معنی ’انصاف‘ یا ’دادرسی‘ کے ہیں اور اسم صفت کے طور پر اس کے معنی مستقیم، منصفانہ اور متوازن کے آتے ہیں۔‘‘[6] ٭ جب کہ عام اصطلاح اور قضا کے نقطئہ نظر سے عدل کا مفہوم یہ ہے: