کتاب: محدث شمارہ 324 - صفحہ 119
کے وقت ہی یہ بھی طے کر لیا جاتا ہے کہ مل مالک بینک کے وکیل کی حیثیت سے یہ چینی مارکیٹ میں اس قیمت پر فروخت کر کے رقم بینک کے سپرد کرے گا۔بعض دفعہ معاہدے کے وقت اس کی صراحت نہیں ہوتی مگر فریقین کے ذہن میں یہی ہوتا ہے۔ اگر شوگر مل بروقت چینی فراہم نہیں کرتی تو بینک دی گئی رقم کے فیصد کے حساب سے جرمانہ وصول کرتا ہے جو بینک کی زیر نگرانی قائم خیراتی فنڈ میں جمع کروایا جاتا ہے ۔ اب یہاں بینک کا خود قبضہ کرنے کی بجائے فروخت کنندہ کو ہی وکیل بنانا شرعی اُصول کے خلاف ہے۔ چنانچہ علماء احناف کے سر خیل علامہ سرخسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : وَلَوْ قَالَ رَبُّ السَّلَمِ لِلْمُسْلَمِ إلَیْہِ: کُلُّ مَا لِيْ عَلَیْکَ مِنَ الطَّعَامِ فَاعْزِلْہُ فِي بَیْتِکَ أَوْ فِي غَرَائِرِکَ فَفَعَلَ ذَلِکَ لَمْ یَکُنْ رَبُّ السَّلَمِ قَابِضًا بِمَنْزِلَۃِ قَوْلِہِ اقْبِضْہُ لِي بِیَسَارِکَ مِنْ یَمِیْنِکَ وَہَذَا لِأَنَّ الْمُسْلَمَ فِیہِ دَیْنٌ عَلیٰ الْمُسْلَمِ إلَیْہِ وَالْمَدْیُوْنُ لَا یَصْلُحُ أَنْ یَکُوْنَ نَائِبًا عَنْ صَاحِبِ الدَّیْنِ فِيْ قَبْضِ الدَّیْنِ مِنْ نَفْسِہِ ( المبسوط:۱۵/۱۰۱) ’’خلاصہ یہ کہ سلم کے ذریعے بیچی گئی چیز فروخت کنندہ کے ذمہ اُدھار ہوتی ہے اور جس کے ذمہ اُدھار ہو وہ خوداپنی ذات سے اس کی وصولی کے لئے اس شخص کا وکیل نہیں بن سکتا جس کا اس کے ذمہ اُدھار ہو ۔‘‘ علامہ ڈاکٹر محمد سلیمان اشقرسَلَم سے اسلامی بینکوں کے فائدہ اُٹھانے کے طریقہ کار کی وضاحت کر تے ہوئے لکھتے ہیں : الطریقۃالثانیۃ: أن یوکل المصرف البائع (المسلم إلیہ) بتسویق البضاعۃ بأجر أو دون أجر فإن کان باتفاق معہ مسبق مربوط بعقد السلم نفسہ فإن ذلک باطل لا یجوز،لأنہ من باب جمع عقدین في عقد واحد وکذا لو کان الأمر متفاھما علیہ أن یتم بھذہ الصورۃ (بحوث فقہیہ فی قضایا اقتصادیہ معاصرہ: ۱/۲۱۴) ’’دوسرا طریقہ یہ ہے کہ بینک چیز کی مارکیٹنگ کے لئے فروخت کنندہ کو ہی اپنا وکیل مقررکردے خواہ اس کی اُجرت دے یا بغیر اُجرت کے۔ تو اگر یہ وکالت پہلے سے عقد سلم سے