کتاب: محدث شمارہ 324 - صفحہ 118
بلکہ غیر کی ملکیت ہو ۔چنانچہ امام ابن قیم رحمہ اللہ اس کی تشریح میں رقم طراز ہیں :
وَأَمَّا قَوْلُ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم لِحَکِیمِ بْنِ حِزَامٍ ((لَا تَبِعْ مَا لَیْسَ عِنْدَکَ)) فَیُحْمَلُ عَلَی مَعْنَیَیْنِ: أَحَدُہُمَا أَنْ یَبِیعَ عَیْنًا مُعَیَّنَۃً وَہِيَ لَیْسَتْ عِنْدَہُ بَلْ مِلْکٌ لِلْغَیْرِ، فَیَبِیْعُہَا ثُمَّ یَسْعٰی فِيْ تَحْصِیلِہَا وَتَسْلِیْمِہَا إلیٰ الْمُشْتَريْ وَالثَّانِيْ أَنْ یُرِیْدَ بَیْعَ مَا لَا یَقْدِرُ عَلیٰ تَسْلِیْمِہٖ وَإِنْ کَانَ فِي الذِّمَّۃِ
’’حکیم رضی اللہ عنہ بن حزام سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرماناکہ ’’ جو چیز تیری ملکیت میں نہیں وہ فروخت نہ کر۔‘‘ اس کو دو معنوں پر محمول کیا جائے گا :
1. انسان ایسی متعین چیز بیچے جو اس کے پاس موجود نہ ہو بلکہ غیر کی ملکیت ہو ۔آدمی پہلے اس کو بیچے پھر حاصل کر کے مشتری کے حوالے کرنے کی کوشش کرے۔
2. ایسی چیز کا سودا کرے خواہ ذمہ داری اٹھائے جس کو (مشتری کے) حوالے نہ کر سکتا ہو۔‘‘ (اعلام الموقعین :۲/۴۶)
بیع سلم میں دونوں باتیں نہیں ہو تیں ، کیونکہ یہاں تو صرف بیان شدہ صفات کے مطابق ایک چیز فروخت کرنے کی ذمہ داری قبول کی جاتی ہے ۔
اسلامی بینکوں میں سلم کا استعمال
بلا شبہ سلم ایک بہترین غیر سودی طریقہ تمویل ہے جو عصر حاضر میں بھی لوگوں خصوصاًکاشتکاروں اورمینوفیکچرزکی مالی ضرورتیں پوری کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتا ہے اور بعض اسلامی بینک اس سے فائدہ بھی اُٹھا رہے ہیں ۔لیکن ہمارے ہاں اسلامی بینک اس کی عملی تطبیق گڑبڑ کرتے ہیں جس سے یہ معاملہ شرعی اُصول کے مطابق نہیں رہتا۔ وہ یوں کہ
مثلاً گنے کے سیزن میں شوگر ملوں کو گنا خریدنے کے لئے رقم کی ضرورت ہوتی ہے۔ مل مالکان چاہتے ہیں کہ ہمارا مقصد بھی پورا ہو جائے اور ہم سود سے بھی محفوظ رہیں ، اب وہ اسلامی بینک کی طرف رجوع کرتے ہیں اوربینک اس شرط پر رقم فراہم کرتاہے کہ آپ نے ہمیں اس کے عوض فلاں تاریخ تک اتنی چینی مہیا کرنی ہے یعنی بینک سلم کا معاہدہ کرلیتا ہے۔
شوگر ملز کی طرف سے فراہمی یقینی بنانے کے لیے بینک ضمانت بھی طلب کرتاہے چونکہ بینک کاروباری ادارہ نہیں جو آگے بیچنے کے لیے گاہگ تلاش کرتا پھرے۔ اس لئے معاہدے