کتاب: محدث شمارہ 324 - صفحہ 117
دوسرے سے خریدنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی، گویا وہ اپنی ملکیتی چیز بیچ رہاہے۔ اس کے بر عکس سپلائر جب سلم کا معاہدہ کرتا ہے تو وہ چیز اس کے پاس موجود نہیں ہوتی۔ جبکہ شریعت نے غیر ملکیتی چیز کا سودا کرنے پر پابندی لگائی ہے۔ حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
سَأَلْتُ النَّبِيّ صلی اللہ علیہ وسلم فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اﷲِ! یَأْتِینِي الرَّجُلُ فَیَسْأَلُنِي الْبَیْعَ لَیْسَ عِنْدِي أَبِیْعُہُ مِنْہُ ثُمَّ أَبْتَاعُہُ لَہُ مِنَ السُّوقِ؟
’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیاکہمجھے کوئی شخص ایسی چیز بیچنے کو کہتا ہے جو میرے پاس نہیں ہوتی۔ کیا میں اس کو بیچ دوں پھر وہ بازار سے خرید کر اس کو دے دوں ؟‘‘
اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لاَ تَبِعْ مَا لَیْسَ عِنْدَکَ)) (سنن نسائی:۴۶۱۳)
’’جو چیز تیرے پاس نہیں ، وہ فروخت نہ کر۔ ‘‘
ان حضرات کے خیال میں حضرت حکیم رضی اللہ عنہ کا سوال تجارت میں سلم کے متعلق ہی تھا مگر آپ نے اس کی اجازت نہ دی اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ اگر اس کی صفات بیان کردی گئی ہو ں تو پھر جائز ہے۔ ان حضرات کی تحقیق میں جو روایات اوّل الذکر فریق نے پیش کی ہیں ، وہ ان کے موقف کے ثبوت کے لئے ناکافی ہیں ۔ پہلی روایت کا مفہوم صرف اتنا ہے کہ خریدار کو فروخت کنندہ سے یہ پوچھنے کی ضرورت نہیں کہ آپ کے پاس کھیتی یا باغ ہے یا نہیں ؟ (بحوث فی فقہ المعاملات المالیہ:ص۱۳۴،۱۳۷،۱۳۹ از ڈاکٹر رفیق یونس مصری]
ان حضرات کی طرف سے دوسری روایت کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ اس کا مطلب ہے کہ جو چیز سلم میں فروخت کی جا رہی ہے، اس کا معاہدے کے وقت پایا جانا ضروری نہیں جیسا کہ بعض فقہا کی رائے ہے کہ وہ چیز معاہدہ طے پانے کے دن سے قبضہ کے دن تک بازار میں دستیاب ہو ۔
جو حضرات سپلائرز کو سلم کی اجازت دیتے ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ’’جو چیز تیری ملکیت میں نہیں ، اس کو فروخت نہ کر ‘‘ سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ تاجر سلم سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتا ۔ اس ارشاد کا معنی صرف یہ ہے کہ ایسی متعین چیز فروخت نہ کر جو تیرے قبضہ میں نہ ہو