کتاب: محدث شمارہ 324 - صفحہ 116
نظرکے حامی ہیں چنانچہ اُنہوں نے اس کے حق میں باب السلم إلی من لیس عندہ أصل ’’ایسے شخص سے سلم کا معاملہ کرناجس کے پاس اس چیز کی اصل نہ ہو‘‘ کے عنوان سے ایک مستقل باب باندھا ہے اور استدلال کے لیے ذیل کی روایت لائے ہیں : 1. قَالَ عَبْدُ اﷲِ: کُنَّا نُسْلِفُ نَبِیْطَ أَہْلِ الشَّأْمِ فِي الْحِنْطَۃِ وَالشَّعِیْرِ وَالزَّیْتِ، فِیْ کَیْلٍ مَعْلُوْمٍ إِلیٰ أَجَلٍ مَعْلُوْمٍ قُلْتُ: إِلیٰ مَنْ کَانَ أَصْلُہُ عِنْدَہُ قَالَ: مَا کُنَّا نَسْأَلُہُمْ عَنْ ذَلِکَ (صحیح بخاری:۲۰۸۸) ’’حضرت عبداللہ رحمہ اللہ کہتے ہیں :ہم شام کے کاشتکاروں کے ساتھ گندم،جو اور تیل میں متعین پیمانے اور متعین مدت کے لئے سلم کا معاملہ کرتے:( محمد بن ابی مجالد رحمہ اللہ کہتے ہیں ) میں نے پوچھا :کیا ان سے جن کے پاس ان چیزوں کی اصل ہوتی ؟اُنہوں نے فرمایا :ہم ان سے اس کے متعلق نہیں پوچھتے تھے ۔‘‘ حضرت عبداللہ رحمہ اللہ کا مطلب ہے کہ ہم ان سے یہ نہیں پوچھتے تھے کہ تمھارے پاس گندم یاجو کی فصل ہے یا نہیں ؟ 2. اس نقطہ نظر کے حق میں دوسری روایت یہ پیش کی جاتی ہے : کُنَّا نُسْلِفُ فِيْ عَہْدِ رَسُولِ اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم وَأَبِيْ بَکْرٍ وَعُمَرَ فِي الْحِنْطَۃِ وَالشَّعِیْرِ وَالزَّبِیْبِ أَوِ التَّمْرِ شَکَّ فِي التَّمْرِ وَالزَّبِیْبِ وَمَا ہُوَ عِنْدَہُمْ أَوْ مَا نَرَاہُ عِنْدَہُمْ (مسند احمد:۴/۳۵۴) ’’ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ابو بکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں گندم ،جو اور منقی یا کہا کہ کھجوروں میں (یعنی راوی کو یہ شک ہے کہ کھجور کا لفظ بولا یامنقیٰ کا ) بیع سلم کرتے حالانکہ وہ چیز ان کے پاس نہیں ہوتی تھی یا کہا: ہم وہ ان کے پاس نہیں دیکھتے تھے۔ ‘‘ اس نقطہ نظر کے قائلین کہتے ہیں کہ یہ روایات اس امر کا بین ثبوت ہیں کہ سلم کی اجازت سپلائر کے لئے بھی ہے ۔ 2. دوسری رائے یہ ہے کہ سلم کی اجازت صرف کاشتکاروں اور مینوفیکچرز کو ہے ۔ان حضرات کی دلیل یہ ہے کہ کاشتکار اور چیز تیار کرنے والا جب سلم کے ذریعے چیز بیچتا ہے توغالب گمان یہی ہوتا ہے کہ مدتِ حوالگی کے وقت وہ چیز اس کے پاس موجود ہو گی یا اس کو