کتاب: محدث شمارہ 324 - صفحہ 115
٭ گارنٹی سے حاصل شدہ رقم سے اس قسم کی چیز بازار سے خرید لے۔
٭ یا اپنی اصل رقم وصول پالے۔
لیکن اضافی رقم خواہ جرمانے کے نام پر ہی کیوں نہ ہو، وصول نہیں کی جاسکتی۔بعض حضرات کی رائے میں اگر جرمانہ کی رقم قرض خواہ یااُدھار دینے والے کی آمدن کاحصہ نہ بنے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ۔لیکن یہ رائے صائب نہیں ،کیونکہ شرعاً قرض یا اُدھارپرمشروط اضافہ سود کے زمرہ میں داخل ہے، اس میں آمدن کا حصہ بننے یا نہ بننے کی شرط نہیں ۔
قبضہ سے پہلے بیچنا
سلم کے ذریعے خریدی گئی چیز جب تک خریدار کے قبضہ میں نہ آجائے، اس کو آگے فروخت کر نا منع ہے ۔کیونکہ یہ دَین ہے جس کو بیچنا شرعاً درست نہیں۔ علاوہ ازیں احادیث میں قبضہ سے قبل فروخت کی ممانعت ہے ۔چنانچہ علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
أَمَّا بَیْعُ الْمُسْلَمِ فِیہِ قَبْلَ قَبْضِہِ فَـلَا نَعْلَمُ فِي تَحْرِیمِہِ خِلَافًا، وَقَدْ نَہٰی النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم عَنْ بَیْعِ الطَّعَامِ قَبْلَ قَبْضِہِ وَعَنْ رِبْحِ مَا لَمْ یُضْمَنْ وَلِأَنَّہُ مَبِیعٌ لَمْ یَدْخُلْ فِي ضَمَانِہٖ،فَلَمْ یَجُزْ بَیْعُہُ کَالطَّعَامِ قَبْلَ قَبْضِہِ (المغنی:۹/۶۸)
’’سلم کے ذریعے خریدی گئی چیز کو قبضے سے قبل فروخت کرنے کی حرمت میں ہم کسی اختلاف کا علم نہیں رکھتے۔بلاشبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبضے سے قبل غلے کی بیع سے منع فرمایا ہے۔اور اس چیز کے نفع سے بھی منع فرمایا ہے جس کا رِسک نہ اُٹھایا گیا ہو۔اور یہ چیز تو ابھی اس کے رسک میں نہیں آئی لہٰذا ا س کی بیع جائز نہیں جس طرح کے غلے کی بیع قبضے سے قبل جائز نہیں ۔‘‘
نوٹ:اس چیز کی فروخت کا ایسا وعدہ جس کی پابندی دونو ں یا کسی ایک فریق کے لئے لازمی ہو، وہ بھی اس ممانعت میں شامل ہیں ۔
تجارت میں سلم کا استعمال
کیا سلم کی اجازت صرف کاشتکاروں اور اشیا تیار کرنے والوں کو ہے یا سپلائرز بھی اس سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں ؟اس بارے میں دو نقطہ نظر ہیں :
1. اکثر علماء کی راے میں یہ رعایت تاجروں کے لئے بھی ہے ۔امام بخاری رحمہ اللہ بھی اسی نقطہ