کتاب: محدث شمارہ 324 - صفحہ 114
صحیح بات یہ ہے کہ فریقین کو باہمی رضا مندی سے کوئی بھی مدت مقررکرنے کا اختیار ہے ۔ ٭ ایک تو اس لیے کہ ذخیرئہ احادیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کم از کم مدت کے متعلق کوئی روایت منقول نہیں ۔ ٭ دوسرا اس لیے کہ سلم کی اجازت کا مقصد لوگوں کو سہولت دینا ہے اور یہ مقصد تب ہی حاصل ہو سکتا ہے جب مدت کی پابندی نہ ہو ۔ حوالگی میں تاخیر پر جرمانہ سلم میں بیچی گئی چیز چونکہ فروخت کنندہ کے ذمے دَین (اُدھار) ہوتی ہے جس میں تاخیر پر جرمانہ صریح سود شمار ہوتا ہے ۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے : مَنْ أَسْلَفَ سَلَفًا فَلاَ یَشْتَرِطْ إِلاَّ قَضَائَ ہُ (مؤطا امام مالک،باب ما لا یجوز من السلف: ۱۳۸۸) ’’جو بیع سلم کرے، وہ ادائیگی کے علاوہ کوئی شرط عائد نہ کرے۔‘‘ اسلامی بینکوں کی رہنمائی کے لئے مرتب کردہ شریعہ سٹینڈرز میں ہے : لَا یَجُوْزُ الشَّرَطُ الْجُزَائِيْ عَنِ التَّأْخِیْرِ فِيْ تَسْلِیْمِ الْمُسْلِمِ فِیْہِ (ص۱۶۲) ’’جس چیز میں سلم کا سودا ہوا ہو، اس کی تاخیر پر شرطِ جزائی جائز نہیں ۔ ‘‘ صفحہ ۱۷۰ میں ممانعت کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ جس چیز کا سودا ہواہے، وہ بیچنے والے کے ذمہ دَین ہے جس پر اضافہ کی شرط سود شمار ہوتی ہے۔ اگر فروخت کنندہ تنگ دستی کی وجہ سے بروقت چیز مہیا نہ کر سکے تو اس کو آسانی ہونے تک موقع دیا جائے گا۔ اگر مطلوبہ چیز کی پیداوار کم ہونے یا بازار میں دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے بائع کے لئے بر وقت سپردگی ممکن نہ ہو تو خریدارکے پاس اختیارہے کہ وہ : ٭ بازار میں آسانی سے دستیاب ہونے کا انتظار کرے ۔ یا ٭ سودا ختم کر کے اپنی رقم وصول کر لے ۔ (المعایـیر الشرعیۃ:ص۱۶۲) اگر عمداً تاخیر ی حربے استعمال کرے تو خریداراس کی گارنٹی بیچنے کا حق رکھتاہے، ایسی صورت میں خریدار کے پاس دو ہی اختیار ہوں گے: