کتاب: محدث شمارہ 324 - صفحہ 113
سلم کی شرطوں کے بغیر درست نہیں ہوتی۔ البتہ امام زفر کے علاوہ باقی حنفیوں کے نزدیک یہ ایک مستقل عقد ہے جس کی اپنی شرطیں اور خاص احکام ہیں ۔‘‘ سلم میں رَہن اور ضمانت طلب کرنا بیع سلم میں بیچی گئی چیز چونکہ فروخت کنندہ کے ذمہ اُدھار ہوتی ہے لہٰذا خریدار حوالگی یقینی بنانے کے لئے رہن یا گارنٹی کا مطالبہ کر سکتا ہے۔ ہم اوپر حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے حوالے سے بیان کر آئے ہیں کہ سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر۲۸۲ : ﴿یَآ اَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا إِذَا تَدَایَنْتُمْ بِدَیْنٍ إِلٰی اَجَلٍ مُسَمًّی فَاکْتُبُوْہُ ﴾ ’’اے ایمان والو!جب تم آپس میں مقرر وقت تک ادھار کا معاملہ کرو تو اس کو لکھ لیا کرو۔ ‘‘ میں بیع سلم بھی شامل ہے جبکہ اس سے بعد والی آیت میں اُدھار میں رہن کی اجازت دی گئی ہے ۔یعنی سلم میں رہن کا جواز قرآن سے ثابت ہے ۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے حق میں بایں الفاظ بَابُ الرَّہْنِ فِي السَّلَمِ ’’سلم میں رہن کا ثبوت‘‘ عنوان قائم کیا ہے اور یہ روایت ذکر کی ہے کہ اعمش رحمہ اللہ کہتے ہیں : تَذَاکَرْنَا عِنْدَ إِبْرَاہِیمَ الرَّہْنَ فِي السَّلَفِ فَقَالَ حَدَّثَنِي الأَسْوَدُ عَنْ عَائِشَۃَ أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم اشْتَرٰی مِنْ یَہُودِيٍّ طَعَامًا إِلیٰ أَجَلٍ مَعْلُومٍ، وَارْتَہَنَ مِنْہُ دِرْعًا مِنْ حَدِیْدٍ (صحیح بخاری:۲۰۹۳) ’’ہم نے ابراہیم کے پاس سلم میں رہن کے متعلق گفتگو کی تو اُنہو ں نے فرمایا: مجھے اَسود نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی سے متعین مدت کے لئے غلہ خریدا اور اس کے پاس لوہے کی زرہ گروی رکھی۔ ‘‘ سلم میں قبضہ کی مدت چونکہ حدیث و سنت میں بیع سلم میں قبضہ کی کم از کم مدت کے متعلق کوئی صراحت نہیں ملتی اسلئے اس بارے میں فقہا میں اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک ایک گھڑی کی مہلت بھی کافی ہے جبکہ بعض نصف یوم، بعض دو یا تین اور بعض پندرہ دن کے قائل ہیں ۔ (عمدۃ القاری:۸/ ۵۸۱) علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ کی رائے میں کم از کم اتنی مد ت ہونی چاہے جس کا قیمتوں پر مناسب اثر پڑتا ہو اور وہ مدت ایک مہینہ یا اس کے قریب ہے۔ (المغنی: ۶/۴۰۴)