کتاب: محدث شمارہ 324 - صفحہ 112
اور فلاں سال کا ماڈل ہو، کیونکہ قیمتوں کے فرق کی وجہ سے اس میں جہالت پائی جاتی ہے جو نزاع کا باعث بن سکتی ہے۔ گاڑیوں کے علاوہ دوسری بڑی فیکٹریوں جن کی پیداواربازاروں میں عام ہے، کا بھی یہی حکم ہے۔ البتہ مخصوص زرعی فارم اور محدود پیداوار کے حامل کارخانے کا یہ حکم نہیں کیونکہ اس کی پیداوار بند بھی ہو سکتی ہے ۔‘‘ [البحوث الفقہیۃ في قضایا الاقتصادیۃ المعاصرۃ: ۱/۱۹۴،۱۹۵] علامہ سلیمان اشقر کے خیال میں بعض مالکی فقہا جیسے ابن شاس اور ابن الحاجب کے کلام سے بھی اس نقطہ نظر کی تائید ہوتی ہے ۔اُنہوں نے متعین باغ کے پھل میں سلم ناجائز ہونے کے ساتھ یہ شرط لگائی ہے کہ ’’ وہ باغ چھوٹا نہ ہو۔ ‘‘اور جانوروں میں یہ قید لگائی ہے کہ ’’ ان کا تعلق ایسی نسل سے نہ ہو جو کم پائی جاتی ہو۔ ‘‘اس کا مطلب ہے کہ باغ اگر بڑا اور جانور کی نسل زیادہ پائی جاتی ہو تو اس میں سلم غیر متعین کی طرح ہی ہے۔ مزید لکھتے ہیں کہ بعض فقہا کے اس کلام کہ ’’بڑی بستی کے پھل میں سلم جائز ہے، لیکن اگر چھوٹی ہو تو پھر جائز نہیں ۔ ‘‘سے بھی اس کو تقویت ملتی ہے۔ (ایضاً) نوٹ: شیئرز کے سودوں میں چونکہ کمپنی کانام ذکر کرنا ضروری ہوتا ہے جس سے اس کی حیثیت متعین چیز میں سلم کی ہو جاتی ہے جو ناجائز ہے۔ کیونکہ ممکن ہے کہ جب سپردگی کا وقت آئے تو مارکیٹ میں اس کمپنی کے شیئرز دستیاب ہی نہ ہوں لہٰذاشیئرز میں بیع سلم درست نہیں ۔ سَلَم اور اِسْتِصْنَاع میں فرق استصناع کا معنی ہے: آڈر پر کوئی چیز تیار کروانا۔ اہل حدیث علما کی رائے میں یہ سلم کی ہی ایک ذیلی قسم ہے جس کا تعلق ایسی اشیا سے ہے جو آڈر پر تیار کروائی جاتی ہیں اور اس میں پابندیاں قدرے نرم ہیں ۔مثلاً اس میں پوری قیمت پیشگی ادا کرنا ضروری نہیں ۔ ڈاکٹر علی احمد سالوس رحمہ اللہ لکھتے ہیں : الاستصناع عند المالکیۃ والشافعیۃ والحنابلۃ جزء من السلم لا یصح إلا بشروطہ وہو عند الحنفیۃ عدا زفر عقد مستقل لہ شروطہ وأحکامہ الخاصۃ (موسوعۃ القضایا الفقہیہ المعاصرۃ والاقتصاد الاسلامی:ص۸۴۲) ’’مالکیوں ،شافعیوں اورحنبلیوں کے نزدیک استصناع سلم کی ہی ایک قسم ہے جو