کتاب: محدث شمارہ 324 - صفحہ 111
کی یہ صورت زمانۂ جاہلیت میں رائج تھی ۔آدمی اس وعدہ پر اونٹ خریدتا کہ جب اونٹنی جنے، پھر وہ بڑی ہو کر جنے ، میں تب قیمت دوں گا ‘‘
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
لَا تَبَایَعُوْا إلَی الْحَصَادِ وَالدِّیَاسِ وَلَا تَتَبَایَعُوْا إلَّا إلیٰ أجَلٍ مَعْلُوْمٍ (اِرواء الغلیل:۵/۲۱۷)
’’فصل کاٹنے یا گاہنے تک بیع نہ کرو بلکہ متعین مدت تک کرو۔ ‘‘
ان دونوں صورتوں میں چونکہ مدت میں ابہام ہے، اس لئے یہ جائز نہیں ہیں ۔
5. مخصو ص باغ یا زمین کے مخصوص قطعہ کی پیداوار میں بیع سلم نہیں ہو سکتی، کیونکہ اس میں غرر پایا جاتا ہے ۔ممکن ہے کہ وہ باغ پھل نہ دے یا قطعہ زمین میں فصل ہی نہ ہو۔ زید بن سعنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا :
ہَلْ لَکَ أَنْ تَبِیْعَنِيْ تَمْرًا مَعْلُومًا إِلیٰ أَجَل مَعْلُوْمٍ مِنْ حَائِط بَنِيْ فُلانٍ قَالَ: لَا أَبِیْعُکَ مِنْ حَائِطٍ مُسَمًّی، بَلْ أَبِیْعُکَ أَوْسُقًا مُسَمَّاۃً إِلیٰ أَجَلٍ مُسَمًّی (فتح الباری: ۴/۵۴۶)
’’کیا آپ مجھے بنو فلاں کے باغ سے متعین مدت کے لیے متعین کھجوریں فروخت کریں گے۔ آپ نے فرمایا: متعین باغ سے نہیں بلکہ متعین وسق متعین مدت کے لیے فروخت کرتا ہوں ۔‘‘
شیخ الاسلام حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقم طراز ہیں :
وَنَقَلَ اِبْن الْمُنْذِرِ اِتِّفَاقَ الْأَکْثَرَ عَلیٰ مَنْعِ السَّلَمِ فِیْ بُسْتَانٍ مُعَیَّنٍ لِأَنَّہُ غَرَرٌ
’’ابن منذر نے متعین باغ میں سلم کی ممانعت پر اکثر کا اتفاق نقل کیا ہے ۔‘‘ (ایضاً)
ڈاکٹر علامہ محمد سلیمان اشقرلکھتے ہیں :
’’دورِ حاضر میں اس کی بعض صورتوں میں نظر ثانی ہونی چاہے، کیونکہ بعض بڑی بڑی فیکٹریاں ایسی ہیں جن کی مصنوعات بہت زیادہ پھیلی ہو ئی ہیں اور ان کی مصنوعات میں ایسی خوبیاں ہیں جو دوسری فیکٹریوں کی مصنوعات میں نہیں پائی جاتیں ۔ جیسے مرسڈیز کمپنی کی گاڑیاں یا توشیبا کے ٹیلی ویژن ہیں ۔اگر کوئی مرسڈیز گاڑی کے ماڈل نمبر۲۰۰ کو ۱۹۹۴ء میں سلم کرنا چاہے تو یہ جائز ہونی چاہیے بلکہ میرے نزدیک گاڑیوں میں اس وقت تک سلم درست نہیں جب تک فیکٹری کا نام ذکر نہ کیا جائے۔صرف یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ گاڑی پانچ سیٹوں والی