کتاب: محدث شمارہ 324 - صفحہ 110
فوری قبضہ کی شرط ضروری ہے جیسے چاندی کے عوض سونے کی بیع یاگندم کے بدلے گندم کا سودا کیونکہ اس قسم کے تبادلہ میں فرمان نبوی کے مطابق موقع پر قبضہ شرط ہے۔
3. مکمل قیمت معاہدہ کے وقت ہی ادا کر دی جائے ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
((مَنْ سَلَّفَ فِيْ تَمْرٍ فَلْیُسْلِفْ فِيْ کَیْلٍ مَعْلُوْم وَّوَزْنٍ مَعْلُوْمٍ)) (صحیح بخاری:۲۲۳۹)
’’جو کھجوروں میں بیع سلف کرے وہ معلوم پیمانے اور معلوم وزن میں کرے۔‘‘
سلف’ سلم‘ کا ہی دوسرا نام ہے اوراس کو سلف اس لئے کہا جاتا کہ اس میں قیمت پیشگی ادا کر دی جاتی ہے جیسا کہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں یعنی پیشگی قیمت کی شرط آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود لگائی ہے ۔اور اگر پوری قیمت پہلے ادا نہ کی جائے تو یہ ادھار کا اُدھار کے ساتھ تبادلہ ہو گا جو شرعاً ممنوع ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَاتَّفَقُوا عَلَی أَنَّہُ یَشْتَرِط لَہُ مَا یَشْتَرِط لِلْبَیْعِ وَعَلَی تَسْلِیم رَأْس الْمَال فِي الْمَجْلِس (فتح الباری :۴/۵۴۰)
’’علماء اس پر متفق ہیں کہ اس کی بھی وہی شرطیں ہیں جو عام بیع کی ہیں اور اس پر بھی متفق ہیں کہ اسی مجلس میں راس المال حوالے کرنا ضروری ہے۔‘‘
امام شوکانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
ہذا الشرط لابد منہ ولا یتم السلم إلا بہ وإلا کان من بیع الکالي بالکالي وقد قدمنا النہي عنہ (السیل الجرار:۳/۱۵۸)
’’یہ شرط ضروری ہے، اس کے بغیر سلم مکمل نہیں ہوتی ورنہ یہ اُدھارکی ادھارکے ساتھ بیع ہوگی اوراس کی ممانعت ہم پہلے بیان کرچکے ہیں ۔‘‘
4. مدتِ حوالگی پوری طرح واضح ہو ۔اگر اس میں کسی قسم کا ابہام پایا جائے تو بیع سلم درست نہ ہو گی۔ حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما نقل کرتے ہیں :
أَنَّ رَسُولَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم نَہٰی عَنْ بَیْعِ حَبَلِ الْحَبَلَۃِ۔وَکَانَ بَیْعًا یَتَبَایَعُہُ أَہْلُ الْجَاہِلِیَّۃِ کَانَ الرَّجُلُ یَبْتَاعُ الْجَزُوْرَ إِلیٰ أَنْ تُنْتَجَ النَّاقَۃُ ثُمَّ تُنْتَجُ الَّتِی فِيْ بَطْنِہَا (صحیح بخاری:۱۹۹۹)
’’بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حاملہ کے حمل کی بیع سے منع فرمایا ہے ۔( نافع کہتے ہیں کہ) بیع