کتاب: محدث شمارہ 324 - صفحہ 109
کیا سلم خلافِ قیاس ہے؟ جیسا کہ گزر چکا ہے کہ شرعی اُصول کے مطابق انسان کو وہی چیز بیچنے کی اجازت ہے جو نہ صرف وجود میں آچکی ہو بلکہ اس کی ملکیت اور قبضہ میں ہوجبکہ سلم میں عقد کے وقت چیز کا وجو د ہی نہیں ہوتا۔اس بنا پر بعض فقہا نے کہا ہے کہ سلم بیع معدوم کی ایک استثنائی صورت ہے۔مگر امام ابن قیم رحمہ اللہ اس سے متفق نہیں ہیں ، چنانچہ وہ فرماتے ہیں : وأما السلم فمن ظن أنہ علی خلاف القیاس وتوہم دخولہ تحت قول النبي صلی اللہ علیہ وسلم :((لا تَبع ما لیس عندک)) فإنہ بیع معدوم والقیاس یمنع منہ والصواب أنہ علی وفق القیاس فإنہ بیع مضمون في الذمۃ موصوف مقدور علی تسلیمہ غالبًا وہو کالمعارضۃ علی المنافع في الإجارۃ وقد تقدم أنہ علی وفق القیاس ( اِعلام الموقعین:۲/۱۹) ’’اس کا مطلب ہے کہ جو حضرات سلم کو خلافِ قیاس سمجھتے ہیں ، وہ اس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد ’’جو چیز تیرے پاس موجود نہیں ، اس کو فروخت نہ کر ۔‘‘میں داخل سمجھنے کی غلطی کرتے ہیں جبکہ صحیح بات یہ ہے کہ یہ قیاس کے مطابق ہے۔کیونکہ یہ ایسی بیع ہے جس میں انسان ایسی چیز جس کو عام طورپر حوالے کر سکتا ہو، کو طے شدہ صفات کے مطابق بیچنے کی ذمہ داری اُٹھاتا ہے۔ اور اس کی مثال اِجارہ میں منفعت کا معاوضہ لینے جیسیہی ہے۔اور جیسا کہ پہلے گزر چکاہے کہ اجارہ قیاس کے مطابق ہے۔‘‘ بیع سلم کی شرطیں اس میں ان تمام پابندیوں کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے جو شریعت نے عام بیع کے لئے مقرر کی ہیں ، تاہم معاملہ کو غرر (دھوکہ) سے پاک رکھنے کے لئے کچھ خاص شرطیں بھی رکھی گئی ہیں ۔مثلاً 1. جس چیز کا سودا کیا جا رہا ہو معاہدے کے وقت اس کی نوعیت، اوصاف، مقدار، تعداداور مالیت کا تعین پہلے سے کیا جاسکتا ہو۔جن چیزوں میں ایسا ممکن نہ ہو ،ان میں بیع سلم جائز نہیں ہوتی جیسے قیمتی موتی، جواہرات اورنوادرات ہیں ، کیونکہ ان کی اکائیاں ایک دوسرے سے کافی مختلف ہوتی ہیں ۔ 2. جو چیز بیچی اورجوقیمت میں دی جا رہی ہو، دونوں کا تعلق ان اَموال سے نہ ہو جن میں