کتاب: محدث شمارہ 324 - صفحہ 108
أَشْہَدُ أَنَّ السَّلَفَ الْمَضْمُوْن إِلیٰ أَجَل مُسَمًّی قَدْ أَحَلَّہُ اﷲُ فِيْ کِتَابہٖ وَأَذِنَ فِیہِ ثُمَّ قَرَأَ ﴿یَآ أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا إِذَا تَدَایَنْتُمْ بِدَیْنٍ إِلیٰ أَجَلٍ مُسَمًّی فَاکْتُبُوْہُ﴾ (مصنف ابن ابی شیبہ:۵/۲۷۷،مستدرک حاکم:۷/۲۵۸) ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ مقررہ مدت تک ضمانت دی گئی سلم کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب جائز قرار دیا ہے اور اس کی اجازت دی ہے۔ پھر اُنہوں نے قرآن حکیم کی یہ آیت تلاوت فرمائی: ’’اے ایمان والو!جب تم آپس میں مقررہ وقت تک اُدھار کا معاملہ کرو تو اس کو لکھ لیا کرو۔‘‘ حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : إِنَّا کُنَّا نُسْلِفُ عَلیٰ عَہْدِ رَسُوْلِ اﷲِ وَأَبِي بَکْرٍ وَعُمَرَ فِي الْحِنْطَۃِ وَالشَّعِیْرِ وَالزَّبِیْبِ وَالتَّمْرِ (صحیح بخاری: ۲۲۴۳) ’’ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،ابو بکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں گندم ،جو ،کھجور اور منقیٰ میں بیع سلم کرتے تھے۔ ‘‘ شیخ الاسلام حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں فرماتے ہیں : وَاتَّفَقَ الْعُلَمَائُ عَلیٰ مَشْرُوعِیَّتِہٖ إِلَّا مَا حُکِيَ عَنْ ابْنِ الْمُسَیِّبِ (۴/۵۴۰) ’’سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ کے علاوہ تمام علماء اس کے جواز پر متفق ہیں ۔‘‘ سلم کی اجازت کا فلسفہ بعض کسانوں اور مینو فیکچرز کے پاس ضرورت کے مطابق مثلاً بیج ، کھاد، آلات ، خام مال خریدنے اور لیبر کے لئے رقم نہیں ہو تی۔ ایسے لوگوں کو اسلام نے یہ سہولت دی ہے کہ وہ حصولِ رقم کی خاطر اپنی فصل یا پیداوار قبل از وقت فروخت کر سکتے ہیں تاکہ قرض کے لئے کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بچے رہیں ۔ یاد رہے کہ یہ اجازت شریعت کے اس عام اصول سے استثنا ہے کہ معدوم شے کی بیع حرام ہے، اور اس استثنا کی دلیل خود فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ اس اجازت کا اِضافی فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی چیز بیچنے کے لئے گاہگ تلاش کرنے کی فکر سے آزاد ہو جاتا ہے، کیونکہ اس کا سودا پہلے ہی ہو چکا ہوتا ہے۔ اس سے خریدار کو بھی فائدہ پہنچتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ سلم میں طے کردہ قیمت ان چیزوں کی اس قیمت سے کم ہوتی ہے جو نقدادا کی جانی ہو ۔ نیز اگر چیز آگے بیچنا چاہتا ہو تو مارکیٹنگ کے لئے بھی مناسب وقت مل جاتا ہے ۔