کتاب: محدث شمارہ 324 - صفحہ 107
معیشت واقتصاد مولانا حافظ ذو الفقار علی
ابوہریرہ شریعہ کالج، لاہور
بیع سَلَم کے اُصول اور اسلامی بنک
بعض اسلامی بینکوں میں تمویلی سرگر میو ں کے لئے بیع سلم کا استعمال بھی جاری ہے۔ سَلَم ایک معروف شرعی اصطلاح ہے جس سے مراد لین دین اور خرید وفروخت کی وہ قسم ہے جس میں ایک شخص یہ ذمہ داری قبول کرتا ہے کہ وہ مستقبل کی فلاں تاریخ پر خریدار کو ان صفات کی حامل فلاں چیز مہیا کرے گا ۔شیخ الاسلام حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَالسَّلَمُ شَرْعًا بَیْعٌ مَوْصُوْفٌ فِي الذِّمَّۃِ (فتح الباری: ۴ /۵۴۰)
’’سلم کا شرعی معنی : ایسی چیز بیچنے کی ذمہ داری اُٹھانا ہے جس کی صفات بیان کر دی گئی ہوں ۔‘‘
اس کو سَلَف بھی کہتے ہیں کیوں کہ اس میں بیچی گئی چیز کی قیمت معاہدے کے وقت ہی ادا کر دی جاتی ہے۔یعنی یہ بیع کی وہ قسم ہے جس میں قیمت تو فوری ادا کر دی جاتی ہے مگر چیز بعد میں فراہم کی جاتی ہے ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہاں بیع کی یہ صور ت بھی رائج تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کلیّۃًمنع کرنے کی بجائے بنیادی اصلاحات کر کے اس کو باقی رکھا جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کر تے ہیں :
قَدِمَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم الْمَدِینَۃَ وَہُمْ یُسْلِفُونَ بِالتَّمْرِ السَّنَتَیْنِ وَالثَّلاَثَ، فَقَالَ: ((مَنْ أَسْلَفَ فِيْ شَيْئٍ فَفِيْ کَیْلٍ مَعْلُومٍ وَّوَزْنٍ مَعْلُوْمٍ، إِلیٰ أَجَلٍ مَعْلُومٍ)) (صحیح بخاری:۲۲۴۱)
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو لوگ کھجوروں میں دو اور تین سال کے لئے بیع سلم کرتے تھے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جو شخص بیع سلم کرنا چاہتا ہے، وہ متعین پیمانے اوروزن میں متعین مدت کے لیے کرے۔‘‘
دوسری جگہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں :