کتاب: محدث شمارہ 324 - صفحہ 106
ہے کہ اسلامی یونیورسٹی کے لڑکے پینٹ شرٹ پہنتے ہیں اور لڑکیاں بے پردہ رہتی ہیں اور دارالعلوم کے لڑکے کرتا شلوار پہنتے اور ٹوپی اوڑھتے ہیں ؟ ظاہری وضع قطع تو ایک مظہر ہے جو دکھاتا ہے کہ دونوں اداروں کی اساسی فکر ، تعلیم و تربیت اور نصاب کے مزاج و نظام میں خاصا فرق ہے جس کی وجہ سے اسلامی یونیورسٹی کا کوئی طالب علم اپنی غیر اسلامی وضع قطع کے ساتھ دارالعلوم کے ماحول میں نہیں سما سکتا۔ انسان کی وضع قطع ہی عام طور سے اس کے رجحانات و میلانات کی نشاندہی کرتی نظر آتی ہے۔ اسی وجہ سے تو یونیفارم پر زور دیا جاتا ہے اور یورپ اور ترکی میں عورتوں کا سکارف معرکہ آرا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ اسی لیے جب کسی اسلامی بینک میں غیر اسلامی وضع قطع والے عملہ کو دیکھا جاتا ہے تو دیکھنے والا یہی نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ یہاں اسلامی یونیورسٹی کا سا ماحول ہے۔ اور جیسے اسلامی یونیورسٹی کا تعلیم و تربیت کا نظام و نصاب خالص اور کھرا اسلامی نہیں جیسا کہ دارالعلوم کا ہے، اسی طرح اس اسلامی بینک کا بینکنگ نظام بھی خالص اور کھرا اسلامی نہیں ہو سکتا اس میں ضرور کچھ آمیزش ہے۔ غرض اسلامی بینکوں کے مالک اور ان کا عملہ جب غیر اسلامی وضع قطع کا حامل ہے تو عام سمجھ بوجھ والا آدمی بھی یہ سمجھنے میں حق بجانب ہے کہ ان لوگوں نے اسلامی بینکنگ کو مشنری جذبہ سے نہیں لیا بلکہ ایک خالص پیشہ ور کی حیثیت سے لیا ہے جیسا کہ برطانیہ میں بھی غیر مسلموں نے اسلامی بینکنگ کو اختیار کیا ہے اور یہ اپنے مفادات کے تابع ہیں اور کوئی بعید نہیں کہ کسی بھی وقت یہ اپنے نظام میں من چاہی تبدیلی کر لیں ۔ یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جو مروّجہ اسلامی بینکنگ کو مشتبہ بنا دیتا ہے کہ آخر ان لوگوں نے کہ جو اپنے وجود پر اسلام نافذ کرنے کو تیار نہیں ، اسلامی بینکنگ کو کیوں اختیار کیا ہے اور ہماری جس حکومت نے غیر سودی بینکنگ کے حق میں فیصلہ دینے کی وجہ سے مولانا تقی عثمانی مدظلہ کو شرعی عدالت سے نکال دیا تھا، اس کے وزیروں نے کچھ ہی مدت بعد اسلامی بینکنگ کی اذانیں کیسے دینی شروع کر دیں ۔ اورامریکہ جو ہمارے ہاں کی نصاب کی کتابوں سے ان آیتوں کو نکلواتا ہے جن سے طلبہ کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھاتے تھے، صرف ملکی ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی پلیٹ فارم پر اتنے اہم اسلامی نظام کو کیسے برداشت کر رہا ہے…؟