کتاب: محدث شمارہ 324 - صفحہ 104
کو اتنی رقم کا غیر سودی قرضہ جاری کرسکتا ہے جو ہنڈی کی رقم کے برابر ہو، نیز برآمد کنندہ بینک کو اپنی یہ رضا مندی دے سکتا ہے کہ وہ ہنڈی کی رقم وصول ہونے پر اس کو قرض کی واپسی میں شمار کرلے۔
یہاں دو جدا جدا عمل ہیں لہٰذا معاہدے بھی دو ہوں گے۔ ایک معاہدے کے تحت بینک کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ ہنڈی کی رقم برآمد کنندہ کے لئے وصول کرے اور اس پر مخصوص اُجرت لے۔ دوسرے معاہدے کے تحت بینک برآمد کنندہ کو غیر سودی قرضہ مہیا کرے گا نیز بینک کو اختیار ہوگا کہ وہ ہنڈی کی رقم اپنے قرض کی واپسی میں رکھ لے۔
یہ معاہدے شریعت کی رو سے درست اور جائز ہیں کیونکہ کسی خدمت پر اجرت لینا بھی جائز ہے اور غیر سودی قرضہ دینا بھی جائز ہے۔‘‘
اس عبارت کا حاصل یہ ہے کہ ہنڈی یعنی Bill of Exchange کو مثلاً برآمد کنندہ بینک کے پاس لے جائے جو رقم کی وصولی کے لئے برآمد کنندہ سے اپنی فیس وصول کرے۔ البتہ بینک برآمد کنندہ کو علیحدہ سے بل کی رقم کے برابر غیر سودی قرضہ بھی دے۔ یہ دو معاملات علیحدہ علیحدہ کئے جائیں ۔
یہ تدبیر بالکل غیر مناسب ہے کیونکہ ان دو معاملات کو علیحدہ علیحدہ کرنے کے باوجود ان میں وہ خرابی موجود رہتی ہے جو ان کے اکٹھے ہونے میں سمجھی گئی ہے۔ وہ اس طرح سے کہ بینک کی پالیسی کو قانونی حیثیت حاصل ہوتی ہے جس پر اس کا مؤاخذہ ہوسکتا ہے لہٰذا برآمد کنندہ جب اپنے بل کی وصولی کے لئے فیس اور اُجرت دے گا تبھی قانونی طور پر بینک سے قرضہ وصول کرسکتا ہے، گویا قانونی اعتبار سے اجارہ قرضہ کے ساتھ مشروط ہوتا ہے ۔ یہ شرط اس طرح کی نہیں جس پر فریقین نے پہلے سمجھوتہ کرلیا ہو اور عقد میں اس کو ذکر نہ کیا ہو کیونکہ اس شرط کو قانونی حیثیت حاصل نہیں ہوتی۔ علاوہ ازیں المعروف کالمشروط کا قاعدہ بھی یہاں چلتا ہے، لہٰذا اجارہ فاسد ہوگا۔
8. بینک کا عملہ و ماحول
چھٹی خرابی بیان کرتے ہوئے ہم نے لکھا تھا کہ
’’اسلامی بینک میں جس قسم کا عملہ موجود ہے وہ Bank City (سٹی بینک) یا Hong