کتاب: محدث شمارہ 324 - صفحہ 100
industry and trade, and will keep the wheel of financial activities jammed for long periods. There is no other solution for this problem except to apply the method of daily products for the calculation of profits, and since there is no specific injunction of Shariah against it, there is no reason why this method should not be adopted."
’’اگر یومیہ سرمایہ کی بنیاد پر نفع کی تقسیم کو قبول نہ کیا جائے تو اس کا مطلب ہے کہ نہ تو کوئی شریک کوئی رقم نکلوا سکتا ہے اور نہ ہی مشترکہ فنڈ میں کوئی نئی رقم شامل کی جا سکتی ہے۔ اس طرح کسی کے لئے بھی ممکن نہ ہو گا کہ وہ مشترکہ فنڈ میں رقم جمع کرا سکے، سواے نئی میعاد کے شروع ہونے کی مقررہ تاریخوں میں ۔ بینکوں اور مالیاتی اداروں میں بچت جمع کرانے کے اعتبار سے یہ طریقہ سرے سے ناقابل عمل ہے جہاں بچت کنندگان ایک دن میں کئی کئی بار پیسے جمع کراتے اور نکلواتے ہیں ۔ یومیہ سرمایہ کے تصور کو ردّ کر دینے سے بچت کنندگان مجبور ہوں گے کہ کسی نفع بخش کھاتہ میں فاضل سرمایہ جمع کرانے سے پہلے وہ مہینوں انتظار کریں ۔ یہ بات صنعت و تجارت کی ترقی کے لئے بچتوں کے استعمال سے مانع ہو گی اور اس طرح سے مالیاتی جدوجہد کے پہئے طویل مدتوں کے لئے بالکل جام ہو کر رہ جائیں گے۔ اس مسئلہ کا اس کے علاوہ کوئی اور حل نہیں ہے کہ نفع کو معلوم کرنے کے لئے یومیہ سرمایہ کے طریقہ کو اختیار کیا جائے اور چونکہ اس کے خلاف شریعت کی کوئی نص موجود نہیں ہے لہٰذا اس کو اختیار نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔‘‘
اوپر یہ دکھانے کے بعد کہ یومیہ بنیادوں کا نظام واضح طور پر شریعت کے خلاف ہے ہمیں عمران اشرف صاحب کی اس انوکھی تقریر پر کچھ تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں سواے اس کے کہ
’’یہ کسی عام بینکر کی زبان کے الفاظ تو ہو سکتے ہیں ، ایک عالم دین اور اسلامی بینکر کے نہیں ۔‘‘
5. شیئرز کی خرید و فروخت
اپنے مستقل مضمون میں شیئرز کی خرید و فروخت کے بارے میں ہم تفصیل سے ذکر کر چکے ہیں کہ وہ ناجائز (ہے، لیکن مولوی عمران اشرف صاحب مرابحہ کے تحت کمپنیوں کے حصص