کتاب: محدث شمارہ 323 - صفحہ 9
کا محرم کے علاوہ کسی اور کے ساتھ سفر کرنا حرام ہے۔جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ((لا تسافر امرأۃ إلا مع ذي محرم))(معرفۃ السنن والآثار للبیہقی:۱۰۸۶۲) ’’کوئی عورت اپنے محرم کے سوا کسی کے ساتھ سفر نہ کرے۔‘‘ اس حدیث کی صحت پر اتفاق ہے اور ا س میں ہر قسم کا سفر شامل ہے خواہ فضا میں سفر کیا جائے یا خشکی پر یا سمندر میں ۔ اللہ تعالیٰ ہی توفیق دینے والا ہے۔ (فتویٰ شیخ عبدالعزیز بن باز) ٭ سوال:کسی دوسرے ملک سے کسی مسلمان خادمہ کو بغیرمحرم کے منگوانا شرع کی روشنی میں کیسا ہے؟ اکثر لوگوں کو یہ مسئلہ پیش آتا ہے اور لوگ مجبوری کا جوازبنا کر علما سے یہ فتویٰ پوچھتے پائے جاتے ہیں جبکہ شرعِ متین میں بغیر محرم کے عورت کا سفر کرنا گناہ ہے۔ تو یہ گناہ کس پر ہوگا کیا عورت پر یا خادم طلب کرنے والوں پر؟ جواب:کسی خادمہ کو بغیر محرم کے کسی دوسرے ملک سے منگوانا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صریح نافرمانی ہے،کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح فرمان ہے کہ ((لا تسافر امرأۃ إلا مع ذي محرم)) ’’کسی عورت کیلئے یہ جائز نہیں کہ وہ بغیر محرم سفر کرے۔‘‘(معرفۃ السنن والآثار للبیہقی:۱۰۸۶۲) لہٰذا عورت کا بغیر محرم کے کسی جگہ سے آنا فتنہ کا سبب بنتا ہے اور فتنہ کے اسباب بھی پیدا کرنا منع ہیں ۔ پس ہر ایسا ذریعہ اور وسیلہ جو حرام کی طرف لے جائے، وہ بھی حرام ہے۔ لوگوں کا اس مسئلہ میں تساہل برتنا بھی خود ایک مصیبت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک ضرورت ہے، لیکن ان کے پاس اس دعویٰ کی کوئی دلیل نہیں ہوتی۔ اگر ہم خادمہ کو منگوا سکتے ہیں تاکہ ضرورت پوری ہوجائے تو پھر اس کو بغیر محرم کیوں منگواتے ہیں بلکہ اس کے محرم یا خاوند کو بھی ساتھ منگوانا چاہئے۔ ایسے ہی اس بات کی بھی کوئی دلیل نہیں کہ عورت کو بغیر محرم بلانے کا گناہ صرف اس خادمہ پر ہے یا منگوانے والے ادارے پر ہے جبکہ حرام کا دروازہ کھولنے کے گناہ میں مدد کرنے کی وجہ سے وہ بھی شریک ہے۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ نیکی کا حکم دو اور برائی سے منع کرو (المائدۃ:۲) اور خادمہ کو بغیر محرم کے منگوانا برائی کو دعوت دینے کے مترادف ہے نہ کہ اس کا انکار ہے۔ علاوہ ازیں غیرمسلم خادمہ سے مسلم خواتین کا پردہ کرنا علماء کے صحیح ترین قول کے مطابق واجب نہیں ، اس لئے کہ وہ باقی عورتوں کی طرح ہیں ۔ ایسے ہی ان کے کپڑے اور برتن دھونے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ ( فتویٰ شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ )