کتاب: محدث شمارہ 323 - صفحہ 4
(iv)نوجوانوں کی توجہ اسلامی تعلیمات کی طرف بڑھ رہی ہے۔ یہ ایک رو ہے جس کا مقابلہ ضروری ہے۔ خاص طور پر لڑکیاں اسلامی لباس کاالتزام کررہی ہیں ۔ اس کا مقابلہ ذرائع نشر واشاعت، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیااور جوابی ’ثقافتی‘ سرگرمیوں کے ذریعے ضروری ہے۔‘‘ دستخط رچرڈ بی مچل امریکی CIA کے ذمہ دارکا ہدایت نامہ آپ نے پڑھ لیا، اس میں مصر کی جگہ پاکستان پڑھ لیجئے اور ذرا توجہ سے ایک بار پھر پڑھ لیں اور پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی، دینی سیاسی جماعتوں کی تقسیم در تقسیم، باہمی چشمک، قبائل میں موجودہ شیعہ سنی فسادات کے محرکات کو سمجھنے میں آپ کو کوئی دقت نہ ہوگی۔ کیا یہ ISIکررہی ہے؟ امریکی میڈیا میں ISI اور پاکستانی طالبان کے خلاف تسلسل کے ساتھ جو کچھ شائع ہو رہا ہے۔ جو’حقائق‘ دنیاکے سامنے پیش کئے جارہے ہیں ، القاعدہ رہنماؤں کی جو ویڈیو ریکارڈنگ آئے دن سامنے لائی جارہی ہے، یہ سب کچھ FBI, CIA اور MOSAD کی فیکٹریوں میں تیارہوتی ہیں ۔میڈیا مکمل طور پر صیہونیت کے قبضہ میں ہے۔ ملاحظہ فرمائیے امریکی اخبار نویسوں کی مجلس میں ایک امریکی ایڈیٹر جان سہونش کا اظہارِ خیال ’’امریکہ میں ’خود مختار میڈیا‘ نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ ہم میں سے کوئی بھی اپنی دیانتدارانہ رائے کااظہار نہیں کرسکتا۔ اگر کوئی کرے گا تو وہ شائع نہ ہوگی۔ مجھے ہر ہفتہ ۲۵ ڈالر صرف اس لئے ملتے ہیں کہ میں اپنے اخبار میں اپنی دیانتدارانہ رائے کااظہار نہ کروں ۔ آپ سب کا یہی حال ہے۔ اگر میں اپنے پرچے میں اس کی اجازت دے دوں تو ۲۴ گھنٹے کے اندر اندر میری ملازمت ختم ہوجائے گی۔ایسا بے وقوف آدمی بہت جلد سڑکوں پر دوسرا کام تلاش کرتا نظر آئے گا۔ نیویارک کے جرنلسٹ کا فرض ہے کہ وہ جھوٹ بولے، جھوٹ لکھے، خبروں کو مسخ کرے، بدزبانی کرے، قارونوں (یہودیوں ) کی چاپلوسی کرے اوراپنی قوم و ملک کو روٹی کی خاطر بیچ کر غلام بن کر رہے۔ ہم پس منظر میں رہنے والے اُمرا کے غلام ہیں ۔ ہمارا ہنر، ہماری زندگی اور ہماری اہلیت ان لوگوں کی پراپرٹی ہے اور ہم ذہنی طوائفیں ہیں ۔‘‘ (بحوالہ’ سونے کے مالک‘) بظاہر مذکورہ اقتباس من گھڑت محسوس ہوتا ہے کہ آج امریکی میڈیا پرہرطرف سے اُنگلیاں اُٹھ رہی ہیں ،امریکی اخبارات و جرائد نت نئی پھلجھڑیاں اور شوشے چھوڑ رہے ہیں ۔ نت نئے ’حقائق‘سامنے لائے جاتے ہیں ، الزامات لگتے ہیں ، تردیدیں ہوتی ہیں لیکن اس کی تہہ میں کیا