کتاب: محدث شمارہ 323 - صفحہ 35
پایپس کی لَے میں لَے ملاتے ہوئے، تمام حدیں توڑ کر، موصوف یہ روشن خیال نظریہ پیش کرتے ہیں : ٭ یاد رکھیے، ناخواندہ مسلمان چاقوؤں اور تلواروں سے جہاد کریں گے ٭ خواندہ مسلمان بندوقوں سے جہاد کریں گے ٭ اعلیٰ فنی و سائنسی تعلیم کے حامل مسلمان ٹکنالوجی اور انٹرنیٹ کوبطورِ آلہ استعمال کرکے، جہادی نظریے کی تشہیرکرکے نئے ’مجاہدوں ‘ کو بھرتی کریں گے ٭ تعلیم یافتہ مسلمان یہی کام اپنے علم اور تجربے کی بنیاد پر زیادہ وسعت سے کریں گے گویا کہ زیادہ پڑھا لکھا مسلمان، زیادہ مذہبی انتہا پسند ہوتا ہے، مطلب یہ کہ پڑھا لکھا فرد [مسلمان] زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ (www.danielpipes.org) دیکھنا چاہیے کہ یہ کون لوگ ہیں ، جو نفرت پھیلانے اور آگ بھڑکانے کا کام کر رہے ہیں ؟ یہ کون لوگ ہیں کہ جن کے نزدیک آئین، دستور اور اخلاق کا کوئی وزن نہیں ؟ درحقیقت یہ وہ لوگ ہیں جن میں سے ایک گروہ مسلم اُمہ کے دین دار طبقوں کو نشانہ بناتا ہے، اور دوسرا گروہ رفاہِ عامہ کے کاموں کو دہشت گردی کا ذریعہ قرار دیتا ہے، جب کہ تیسرا گروہ تاجروں اور مخیر حضرات کو یہی الزام دیتا ہے، اور چوتھا گروہ جدید تعلیم یافتہ اور پُرامن مسلمانوں کو خطرے کا سرچشمہ قرار دیتا ہے، اور آخر نتیجے میں گویا پوری ملت ِاسلامیہ اس سرخ نشان کی زد میں آجاتی ہے۔ اس مسئلے پر غوروفکر، اسلامیانِ علم کے سامنے ایک بڑا اہم سوال ہے!! یہاں پر ایک اور مسئلہ بھی قابلِ توجہ ہے کہ، اور وہ یہ کہ کچھ لوگ بے جا طور پر اپنے آپ کو مغربی جنگجوؤں کے سامنے ماڈریٹ یا ’نرم چارہ‘ ثابت کرنے کے لیے، اُصولی موقف میں بے جا لچک یا حددرجہ لچک دار موقف کو پیش کرنے کے لیے بہت سی بچگانہ کوششیں یا حرکتیں کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ موقف اُصولی، اخلاقی اور منصفانہ ہونا چاہیے، اور پھر اس میں لیت و لعل نہ برتا جائے۔ جن لوگوں کے سامنے موقف کو نرم کرنے کا کھیل کھیلا جاتا ہے، وہ ان چیزوں سے متاثر نہیں ہوتے، اگر اُنہوں نے اس سے متاثر ہونا ہوتا تو بوسنیا اور کوسووا کے حددرجہ مغرب زدہ مسلمانوں کے ساتھ وہ ظلم و زیادتی نہ کرتے۔ گویا کہ دشمن کو لیپاپوتی سے غرض نہیں ، وہ تو جڑ اور بنیاد کو ہدف بنانا چاہتا ہے، اس لیے معاملے کو اُصولی طور پر مضبوط موقف کے ساتھ حل کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔