کتاب: محدث شمارہ 323 - صفحہ 34
اسی اخبار کے ایک بزرگ کالم نگار نے لال مسجد کے سانحے (۱۰جولائی ۲۰۰۷ء) کے تین روز بعد لکھا تھا کہ: ’’اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان کے سیکولر اور روشن خیال طبقے مولویوں کے خلاف متحد ہوجائیں اور فوج کے ساتھ مل کر ان کا مقابلہ کریں ۔‘‘ بہ چشم ہوش دیکھا جائے تو ان کی یہ حسرت ناک خواہش اپنی جگہ ایک جھوٹ ہے۔ اتحاد کیا، اسی ’نام نہاد روشن خیال‘ طبقے کے اتحاد نے تو گذشتہ ۶۰برس سے پاکستانی قوم کے سیاہ و سفید پر قبضہ جما رکھا ہے، مگر افسوس کہ موصوف کو ابھی تک خبر ہی نہیں ہوئی یا پھر یہ ہے کہ ابھی تک ان کی تسلی نہیں ہوئی۔ انہی کے ایک قائد، مسٹر مشرف کی صورت میں قوم کی گردن پر سوار ہیں ۔ دوسرے قائد کراچی میں آگ اُگلتے، خون کا سیلاب لاتے اور اخلاق کا قتل عام کرتے ہیں ۔ پھر اسی اخبار کے مالک اب آدھے پاکستان کے گورنر ہیں ۔ اس حمام میں اتحاد و اختیارکی محرومی کے کیا معنی؟ ڈینیل پایپس کے ارشادات پڑھیے، اور پھر ڈیلی ٹائمز، لاہور کے خصوصی نامہ نگار متعینہ نیویارک خالد حسن کی تائید ِ مزید کو ملاحظہ کیجیے، آپ کو تمام کردار حیرت انگیز طور پر ایک ہی آرکسٹرا کی دُھن پر رقصاں دکھائی دیں گے۔ ہمارے سامنے اس وقت ۲۸/ جنوری ۲۰۰۷ء کا ڈیلی ٹائمز ہے، جس میں یہی خالد حسن ایک تجزیہ پیش کرنے کے بعد لکھتے ہیں : ’’ربوہ شہیدوں کا شہر ہے۔‘‘ ان کی یہ تحریر اور کچھ نہیں تو اس امر کی وضاحت کر دیتی ہے کہ موصوف کی سخن وری کا حدود اربعہ کیا ہے؟ اور اب، جب کہ ڈینیل پایپس نے مذکورہ بالا اشتعال انگیز مضمون شائع کیا اور اسے اپنی ویب سائٹ پر ڈالا تو انہی خالد حسن نے اس کی تائید کے لیے کسی سے پیچھے رہنا پسند نہ کیا، اور ۳جولائی ۲۰۰۸ء کو بطور ’وعدہ معاف گواہ‘ لکھا: گیلپ سروے کے مطابق مسجدوں میں جانے والے مسلمانوں کے برعکس، مسجدوں میں نہ جانے والے مسلمان زیادہ تر دہشت گردی کے پشت پناہ ہیں۔‘‘ [یہ خبر اس نمایندے نے ڈیلی ٹائمز کی اشاعت ۱۲/ مئی ۲۰۰۶ء میں بھی شائع کرائی تھی، لیکن وقت گزرنے کے بعد خبر کے اس ٹکڑے کو دوبارہ ریکارڈ سے نکالتے اور اپنے جذبات کی تپش کا اضافہ کرتے ہوئے، ۳/جولائی ۲۰۰۸ء کے نثرپارے میں آگے چل کر لکھا ہے:] بے روزگار مسلمانوں کے برعکس وہ مسلمان زیادہ دہشت گردی کے پشت پناہ ہیں کہ جن کے پاس کل وقتی ملازمتیں ہیں ۔ [پھر ڈینیل